انگلینڈ کی ٹیم 2000 کے اختتامی مہینوں میں پاکستان کے دورے پر تھی، تین ٹیسٹ میچوں پر مشتمل یہ سیریز لاہور فیصل آباد اور کراچی میں کھیلی گئی۔
اس دورے کے دوران لاہور اور فیصل آباد کے ٹیسٹ میچ بے جان پچوں پر کھیلے گئے، جہاں دونوں ٹیموں کے بلے بازوں نے سست رفتاری سے بیٹنگ کر کے میچوں کو مزید بے مزہ بنا دیا تھا۔
کراچی میں تیسرا اورآخری ٹیسٹ میچ دسمبر کے پہلے ہفتے میں کھیلا گیا۔
پاکستان کی قیادت معین خان کے ہاتھوں میں تھی جب کہ انگلینڈ کی قیادت دور حاضر کے ممتاز کمنٹیٹر ناصر حسین کر رہے تھے۔
ناصر حسین سے جب ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے سوال کیا گیا کہ کیا وہ آخری ٹیسٹ کو بھی ڈرا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں تو حیرت انگیز طور پر انہوں نےاس کے فیصلہ کن ہونے کی نوید دی۔
حالانکہ کراچی کے نیشنل سٹیڈیم کی وکٹ کو بھی ’بیٹنگ کی جنت‘ کہا جاتا تھا اور سیریز کودیکھتے ہوئے ڈرا کی ہی توقع تھی۔
پاکستان کے کپتان معین خان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا اعلان کیا تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔
پاکستان کی اوپننگ تو زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی لیکن انضمام الحق اور سیریز کے کامیاب بلے باز یوسف یوحنا ( جو بعد میں محمد یوسف کہلائے) نے چوتھی وکٹ کے لیے 259 رنز کی شراکت کر کے میچ کے نتیجے کا ابتدائیہ دے دیا تھا۔
دونوں نے سنچریاں بنا کر پاکستان کو پہلی اننگز میں 405 رنز بنانے میں مدد دی۔
انگلینڈ نے اپنی پہلی اننگز میں مزید سست جوابی انداز اپنایا اور سکور کو 388 تک پہنچادیا۔
مائیکل ایتھرٹن نے اپنے کیرئیر کی سست رفتار سنچری بنائی۔
انگلینڈ نے اپنی پہلی اننگز کو چوتھے دن تک پہنچا دیا تھا جس سے میچ میں کسی نتیجے کی امید ختم ہو چکی تھی۔
پاکستان نے اپنی دوسری اننگز جب چوتھے دن شروع کی تو سب کو یہی توقع تھی کہ پانچویں دن کی اختتام تک پاکستانی بلے بازجمے رہیں گے اور ایک اور سیریز بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوجائے گی، اس سے قبل 1978 میں بھی سیریز کے تینوں ٹیسٹ ڈرا ہو گئے تھے۔
پاکستانی اننگز کا آغاز کچھ اچھا نہ تھا، پاکستان کے اوپنرز سعید انور اور عمران نذیر خلاف توقع جلدی آؤٹ ہو گئے۔
انگلینڈ کے ڈیرن گف اور اینڈی کیڈک اس دن بہت عمدہ بولنگ کر رہے تھے۔ انہوں نے اوپنرز کا صفایا کر کے پاکستان کو دباؤ میں لے لیا۔
سلیم الہی اور انضمام الحق نے کچھ جدوجہد کی کہ دن گزر جائے لیکن ایشلے جائلز کی سلو لیفٹ آرم بولنگ نے پاکستانی بلے بازوں کی نہیں چلنے دی اور اوپر تلے گرنے والی وکٹوں نے ڈرا ہوتے ہوئے ٹیسٹ میں جان ڈال دی۔
پاکستان کی مضبوط بیٹنگ لائن دوسری اننگز میں محض 158 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔
ایشلے جائلز اور ڈیرن گف نے تین تین وکٹ لے کر پاکستان کو پانچویں دن لنچ سے کچھ ہی دیر بعد آؤٹ کردیا۔
انگلینڈ کو ٹیسٹ میچ جیتنے کے لیے 176 رنز کا ہدف ملا جو انگلینڈ کی سست رفتار بیٹنگ کو دیکھتے ہوئے دن کے باقی ماندہ 45 اوورز میں مشکل نظر آرہا تھا۔
سردیوں میں سورج کی روشنی غروب سے بہت پہلے مدھم پڑنے لگتی ہے اور شام کے گہرے ہوتے ہوئے سائے میں وقار یونس اورعبدالرزاق کی تیز رفتار گیندیں کھیلنا آسان نہیں تھا لیکن اس شام انگلینڈ کے بلے باز ساری کشتیاں جلا کر بس جیت کا سوچ کر آئے تھے اسی لیے امپائرز کے کئی بار میچ روکنے کی پیشکش کو ٹھکرا گئے۔
انگلینڈ کے اوپنرز تو جلدی آؤٹ ہو گئے لیکن گراہم تھورپ اور گریم ہک کریز پر جم گئے۔
انگلینڈ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اس قدر بے چین تھا کہ بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کر کے جارحانہ بلے باز الیکس اسٹیورٹ کو ون ڈاؤن بھیج دیا گیا۔
انگلینڈ کی تین وکٹ تو جلدی گر گئیں لیکن تھورپ اور ہک نے 90 رنز کی شراکت کر کے میچ کو فتح کی طرف موڑ دیا۔
انگلینڈ نے آخری 50 رنز اس وقت تیزی سے بنائے جب اندھیرے پھیلنے لگا تھا اور گیند مناسب نظر نہیں آرہی تھی۔
گراہم تھورپ نے میچ کے بعد کہا تھا کہ میں صرف اندازے سے کھیل رہا تھا یہ اتفاق تھا کہ گیند بلے پر آ رہی تھی۔
انگلینڈ نے جس وقت میچ جیتا تو سورج غروب ہوچکا تھا اور اندھیرا پھیل گیا تھا، روشنی اس قدر کم ہو چکی تھی کہ میچ ختم ہونے سے پہلے ثقلین مشتاق نے باؤنڈری لائن پر اپنا روزہ افطار کیا تھا۔
انگلینڈ کے بلے باز جب جیت کر باہر آ رہے تھے گراؤنڈ میں ہر طرف اندھیرا ہوچکا تھا۔
معین خان کی کپتانی پر سوالات
اس ٹیسٹ میں پاکستان کی شکست پر معین خان کی کپتانی پر بہت زیادہ سوالات اٹھے تھے۔
انگلینڈ جب ہدف کی جانب بڑھ رہا تھا تو کپتان نے کم روشنی کے باوجود سپنرز سے بولنگ کرائی تھی حالانکہ وقار یونس کی رفتار بلے بازوں کو تنگ کر سکتی تھی لیکن ثقلین مشتاق اور شاہد آفریدی سے مسلسل بولنگ کرانے سے انگلش بلے بازوں کے لیے رنز بنانا آسان ہو گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معین خان نے کئی بار امپائر سٹیو بکنر سے بحث کی تھی کہ میچ ختم کردیا جائے لیکن بکنر معین خان کی وقت ضائع کرنے کی حرکتوں پر پہلے ہی نالاں تھے۔
معین خان بار بار فیلڈ سیٹنگ کے بہانے وقت ضائع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے نذیر جونئیر اور ویسٹ انڈیز کے اسٹیو بکنر امپائرنگ کر رہے تھے اور دونوں امپائر نے اندھیرا ہونے کے باوجود میچ نہیں روکا حالانکہ آخری اوورز میں روشنی اس قدر کم تھی کہ معین خان کئی بار وکٹ کے پیچھے گیند مس کر گئے۔
پاکستان کی فیلڈنگ بھی معیاری نہیں رہی اور دو کیچ چھوٹ جانے سے میچ کا نتیجہ انگلینڈ کے لیے آسان ہو گیا۔
کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں پاکستان کی یہ پہلی شکست تھی اور اس شکست کے پیچھے اگر پاکستان کی بری کارکردگی تھی توانگلینڈ کی جیت کے پیچھے ان کا عزم اور اعتماد تھا۔
انگلینڈ کی ٹیم اپنی روایت کے خلاف مشکل حالات میں کھیلی۔
تیزی سے رنز کیے اور جیت کا ہدف حاصل کیا، یہ کہنا بہتر ہوگا کہ انگلینڈ کو جیت سے اندھیرا بھی نہ روک سکا۔
کیا انگلش ٹیم ایسی ہی کارکردگی اگلے ہفتے سے شروع ہونے والے میچز میں دکھا سکے گی جب وہ راولپنڈی سے دورہ پاکستان کا آغاز کر رہی ہے۔
ایڈیٹنگ: (فرخ عباس)