نہیں لگتا تمام اسمبلیاں تحلیل ہوں گی: رابطہ کار وزیراعلیٰ بلوچستان

بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والی شانیہ خان جو وزیراعلیٰ بلوچستان کی رابطہ کار بھی ہیں نے کہا کہ ’سیاسی صورتحال میں تبدیلی آ رہی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ تمام اسمبلیاں بھی تحلیل ہوجائیں گی۔‘

بلوچستان اسمبلی میں رواں برس اجلاس کی کارروائی کا ایک منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اختتام ہفتہ راولپنڈی میں جلسے کے دوران ملک بھر کی اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا تھا جس پر بلوچستان میں ابھی تک کوئی باقاعدہ عمل درآمد سامنے نہیں آیا۔

تاہم پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر تعلیم نصیب اللہ مری نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں عمران خان کی کال پر مستعفیٰ ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ ان سے رابطہ کرکے موقف لینے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی مسیج دیکھ کر بھی کوئی رد عمل نہیں دیا۔

بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والی شانیہ خان کا کہنا ہے جو وزیراعلیٰ بلوچستان کی رابطہ کار بھی ہیں کہ ’سیاسی صورتحال میں تبدیلی آ رہی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ تمام اسمبلیاں بھی تحلیل ہوجائیں گی۔‘

شانیہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی صورتحال میں اتارچھڑاؤ آتا رہتا ہے تاہم بلوچستان کی سیاسی صورتحال بہت بہتر ہے۔ جہاں تک بات استعفوں کی ہے تو یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی مستعفیٰ ہو سکتے ہیں۔‘

بلوچستان میں ابھی تک واضح نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کتنے اراکین اسمبلی استعفے دیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عام تاثر یہ ہے کہ بلوچستان میں تحریک انصاف دھڑے بندی کا شکار ہے تاہم ان کے مرکزی رہنما اس کی تردید کرتے ہیں۔ 

پاکستان تحریک انصاف بلوچستان ابتدا ہی سے اختلافات کا شکار رہی جن کا برملا اظہار صوبائی صدر و رکن اسمبلی سردار یار محمد رند متعدد بار اسمبلی کے اندر اور باہر بھی کرتے رہے ہیں۔ جس کے باعث عمران خان نے بلوچستان اسمبلی میں سردار یارمحمد رند کو پارلیمانی اور صوبائی صدارت کے عہدوں سے ہٹا دیا تھا اور نصیب اللہ مری کو تحریک انصاف کا پارلیمانی رہنما اور قاسم سوری کو بلوچستان کا صدر بنایا گیا تھا۔

عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے اور نااہل قرار دینے کے فیصلے پر احتجاج کے دوران بھی مظاہروں میں صرف مرکزی رہنما قاسم سوری کو دیکھا گیا۔ اس ضمن میں سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری سے بھی رابطہ کرکے موقف لینے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 

(ج ح)

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست