پاکستان میں ’خبر کا مستقبل‘ کے موضوع پر ایک سیمینار میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک اور ٹوئٹر سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ روزانہ اپنی مرضی سے الگرتھمز کو تبدیل کرنے کے عمل کو شفاف بنائیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیوں کوئی خبر زیادہ پھیلائی جاتی ہے یا نہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے پروگرام انڈی کیمپس کے تحت بیکن ہاؤس یونیورسٹی، لاہور میں اس سیمینار کا اہتمام کیاگیا تھا۔ اس بحث میں طلبہ کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور سوالات پوچھے۔
اس موقع پر طلبہ سے گفتگو میں انڈپینڈنٹ اردو کے مینجنگ ایڈیٹر ہارون رشید نے کہا کہ جس طرح دور حاضر میں میڈیا اور عوام تک معلومات کی رسائی سے متعلق سوشل میڈیا میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس سے ظاہر ہے کہ آنے والے دنوں میں شعبہ صحافت بھی متاثر ہوگا۔
اخبارات کے زمانے سے نیوز چینل اب ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کے اضافہ سے معلومات کی فراہمی اور حصول تو بے شک آسان اور بروقت ہوچکا ہے مگر سب سے بڑا چیلنج فیک نیوز، غلط معلومات کاپھیلاؤ یا پروپیگینڈا ہے۔
ہارون رشید نے کہاکہ جس طرح اخبارات اور ٹی وی چینلز پر فیک نیوز روکنے کے لیے ادارے اور قوانین موجود ہیں اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے بھی سنجیدگی سے اقدامات کرنے ضرورت ہے۔
ہارون رشید نے کہا کہ دور حاضر کے ان چیلنجز کے ساتھ صحافت کے مستقبل بارے بھی تصور کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح روایتی میڈیا جدید تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اسی طرح ذمہ داری بھی بڑھتی جارہی ہے اس لیے ڈیجیٹل میڈیا کی طرف رحجان کے ساتھ خبروں اور معلومات کی مصدقہ فراہمی یقینی بنانے کی پالیسی بھی ناگزیر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر مستقبل کا ایک مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ سٹوری یا ویڈیو وائرل ہونے سے اداروں کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور بعض افراد یا اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ معلومات اگر عوام کی دلچسپی حاصل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں تو ذرائع سے ہی وائرل کر دی جاتی ہیں جو بعض اوقات مصدقہ نہیں ہوتیں۔
اس دوران طلبہ نے سوال پوچھے جن میں سے متفرق یہ تھے کہ سیاسی مقاصد کے لیے میڈیا یا سوشل میڈیا کے ذریعےغلط معلومات یا پروپیگنڈا صحافت کے کتنا بڑا خطرہ ہے؟
جس کا جواب دیتے ہوئے ہارون رشید نے کہاکہ یہ یقینی طور پر بڑا چیلنج ہے مگر میڈیا کو مستقبل میں فیکٹ چیک یا ثبوت کے ساتھ تحقیقات کر کے درست معلومات لوگوں تک پہنچانے کی حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔
اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ زرائع کی بجائے معلومات جس سے منسوب ہوں ان کا نام ریکارڈ پر لایا جائے یا کوئی دستاویزی ثبوت بھی عوام کے سامنے رکھا جائے اور ادارے بھی اپنی مانیٹرنگ سخت کریں تو یہ معاملہ تبھی حل ہوسکتا ہے۔
سیشن میں بی این یو کے شعبہ میڈیا سٹڈیز کے سربراہ محمد فیضان نے کہا کہ شعبہ صحافت کے طلبہ کوجدید صحافتی تربیت دی جا رہی ہے خاص طور پر ڈیجیٹل میڈیا سے متعلق عملی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ انہیں دور حاضر اور مستقبل میں ممکنہ تبدیلیوں سے بھی روشناس کرایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافت کا کوئی بھی شعبہ طلبہ اگر پیشے کے طور پر اپنانا چاہیں تو وہ ملک کے بہترین صحافی، اینکر، پروڈیوسر یا نیوز ایڈیٹر بن کر اپنا نمایاں کردار ادا کر سکیں۔