انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قطر ورلڈ کپ سے اپنے ملک کے باہر ہوجانے کا مبینہ طور پر جشن منانے والے ایرانی شہری کو سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔
سرگرم کارکنان کے مطابق مہران سماک کو تحران کے شمال مغرب میں واقع شہر بندرانزلی میں اپنی کار کا ہارن بجانے کے بعد ہلاک کیا گیا۔
ایک عجیب موڑ پر بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ ہلاک ہونے والا شخص ایرانی فٹ بالر سعید ایزاتولاہی کے بچپن کا دوست تھا، وہ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے اس میچ میں شریک تھے جس میں منگل کو امریکہ سے شکست ہوئی جس کی وجہ سے ایران کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونا یقینی ہوا۔
اوسلو میں قائم ایران کے انسانی حقوق کے گروپ نے جمعرات کو ٹوئٹر پر ایک بیان میں سماک کی موت کی تصدیق کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ان کا نام مہران سماک تھا۔ گذشتہ رات بندر انزلی میں فیفا ورلڈ کپ 2022 میں اسلامی جمہوریہ ایران کی شکست کا دوسروں کی طرح جشن منانے کے لیے نکلے تو ریاستی فورسز نے ان کے سر میں گولی مار دی۔ ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔‘
سماک کی موت کی اطلاع انسانی حقوق کے ایک اور گروپ سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران نے بھی دی تھی۔
اس گروپ نے ایک ٹویٹ میں، ان کی تدفین کی ایک ویڈیو پوسٹ کی اور کہا کہ سماک کو ’مبینہ طور پر 29 نومبر کو صوبہ گیلان کے شہر بندر انزالی میں سکیورٹی فورسز نے اس وقت گولی مار دی جب وہ امریکہ سے ایران کی شکست کا جشن منانے کے لیے گاڑی چلا رہے تھے / ہارن بجا رہے تھے۔‘
ایران کی قومی ٹیم کو منگل کی رات امریکہ سے سخت مقابلے کے بعد ہار گئی تھی اور اس طرح وہ ورلڈ کپ سے باہر ہو گئی۔
His name was #MehranSamak. He was shot in the head by state forces when he went out to celebrate the Islamic Republic’s loss at #FIFAWorldCup2022 in Bandar Anzali last night like many across the country. He was just 27 years old.#مهسا_امینی pic.twitter.com/rfJuuODUiq
— Iran Human Rights (IHR NGO) (@IHRights) November 30, 2022
اس کے بعد ایرانی شہری قومی ٹیم کی شکست کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، جس کو بہت سے لوگ اس علما کی حکومت کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔
سماک کی موت کی خبروں کے بعد، سعید ایزاتولاہی نے کہا کہ وہ انہیں ایک لڑکے کے طور پر جانتے ہیں اور انہوں نے اپنے انسٹاگرام پر ان کی تصویر سٹوری کے طور پر پوسٹ کی ہے۔
انہوں نے لکھا: ’کاش ہم اسی عمر میں ہمیشہ کے لیے رہ سکتے۔ جدوجہد کے بغیر، نفرت کے بغیر، حسد کے بغیر۔‘
’کل رات کی کڑوی شکست کے بعد آپ کے انتقال کی خبر نے میرے دل میں آگ لگا دی ہے۔‘
"Death to the dictator!"
— IranHumanRights.org (@ICHRI) November 30, 2022
Mehran Samak was reportedly shot by security forces in Bandar Anzali, Gilan Province, Nov. 29 as he was driving/honking to celebrate Iran’s loss against the USA in Qatar #WorldCup soccer match.
This was his funeral in Tehran.#مهسا_امینی #مهران_سماک pic.twitter.com/859lqW9My5
ترجمہ کے مطابق اس مڈفیلڈر نے کہا: ’حتٰی کہ اس وقت بھی، جب میں یہ سٹوری لکھ رہا ہوں، میں ابھی تک سویا نہیں ہوں۔ لیکن پرانے دوست، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دن بہ دن اس دنیا میں انسانیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وہ نہیں جس کے ہمارے نوجوان مستحق ہیں۔ یہ وہ نہیں جس کی ہماری قوم مستحق ہے۔‘
مڈفیلڈر نے سماک کی موت کے حالات کی وضاحت نہیں کی، لیکن لکھا کہ ’جس دن یہ ماسک اتریں گے، ان لوگوں کے بارے میں سچائی سامنے آئے گی، اس دن انہیں آپ کے اہل خانہ اور آپ کی والدہ کے درد کا جواب دینا پڑے گا۔‘
امریکہ سے شکست کے بعد روتے ہوئے ایزاتولاہی کو پچ پر امریکی کھلاڑیوں نے تسلی دی تھی۔
ایران کی فٹ بال ٹیم پر ورلڈ کپ کے دوران ہونے والے مظاہروں کی حمایت کرنے کے لیے شدید دباؤ تھا۔
Saeid Ezatolahi shares on his Instagram story that his childhood teammate was killed by authorities last night after the conclusion of the match:
— Gol Bezan (@GolBezan) November 30, 2022
"I wish we could stay at that age forever.
Without struggles, without hatred, without envy, [cont'd] pic.twitter.com/xHce8r64OX
انگلینڈ کے خلاف میچ سے قبل ٹیم نے ظاہری طورپر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا قومی ترانہ نہیں گایا اور خاموشی سے کھڑے رہی۔ میچ کے دوران انہوں نے ٹیم کے دو گولز کا جشن بھی نہیں منایا۔
تاہم ، ٹیم نے ویلز کا سامنا کرنے سے قبل اپنے دوسرے میچ میں ترانہ پڑھا تھا۔
16 ستمبر کو 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد سے ایران بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
حجاب کے قوانین پرعمل نہ کرنے پر ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ نے انہیں حراست میں لیا تھا۔
مہسا امینی کی موت پر ایران میں شروع ہونے والے مظاہرے ملک میں مبلغین کی حکمرانی کو ختم کرنے کے مطالبات میں تبدیل ہوگئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے مظاہروں کو روکنے کے لیے اقدامات کے نتیجے میں اب تک 400 سے زائد مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
© The Independent