سوات میں تنازعات حل کرنے والی کونسل کے واحد سکھ رکن بنسری لال نے علاقے میں مقیم مسلمانوں کے سینکڑوں مسائل حل کیے، جس کے باعث وہ آج بھی مسلم برادری میں مقبول ہیں۔
سوات میں مقیم سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت اپنا کاروبار چلاتی ہے اور پورے علاقے میں سکھ بلا خوف و خطر اپنی مذہبی عبادات اور رسومات ادا کرتے ہیں۔
سوات میں رہائش پذیر سکھ کمیونٹی پشتون معاشرے کا حصہ بن چکی ہے اور پشتون مسلمانوں کے رسم و رواج بھی اپنا چکی ہے۔
بنسری لال کے مطابق ریاست سوات کے دور میں اقلیتی برادری کو پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ انڈیا جانا چاہتے ہیں تو انہیں باعزت طریقے سے بھیجا جا سکتا ہے۔
تاہم ’ہمارے بڑوں نے سوات میں امن و امان کی وجہ سے ان کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔‘
گردوارے میں سکھ مذہب کی مقدس کتاب سری گرو گرنتھ صاحب کو پڑھانے والوں کو ہیڈ گرانتھی کہا جاتا ہے۔
بنسری لال سوات کے ہیڈ گرانتھی ہیں، جن کے مطابق خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کی طرح سوات میں انہیں وہی ثفافتی مسائل کا سامنا کرنا پڑے، جو اقلیت ہونے کی وجہ سے دنیا کے ہر کونے میں درپیش ہوتے ہیں۔
’لیکن یہ اتنی بڑی بات نہیں، ہم سوات میں اس سب کا سامنا نہایت بھائی چارے کے ساتھ کر رہے ہیں۔‘
بنسری لال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی ایس پی) نے انہیں 2019 میں ’ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل‘ (ڈی آر سی) کا رکن بنایا تھا۔
’میں سکھ کمیونٹی میں پہلا اور واحد رکن ہوں جو ڈی آر سی میں اپنی برادری کے علاوہ مسلمانوں کے مسائل بھی حل کرتا ہوں۔ ہم نے اب تک مینگورہ پولیس سٹیشن کے ڈسپیوٹ ریزولوشن کونسل کے تحت سینکڑوں مسائل جرگے کی شکل میں حل کیے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ کونسل کے سامنے سب سے زیادہ مسائل مسلمانوں کے آتے ہیں اور خوش آئند بات ہے کہ وہاں سب بھائیوں کی طرح مل کر مسائل پر بحث کرتے اور ان کے حل کی طرف جاتے ہیں۔
سوات سکھ کمیونٹی کے چیف آرگنائزر بنسری لال نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ 1992 میں تقریباً 20 سال کی عمر میں انہوں نے گردوارے کا چارج سنبھالا تھا اور تب سے وہ سکھ کمیونٹی کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے پہلی مرتبہ سوات میں سکھ کمیونٹی کو متحرک کیا اور گردوارے میں ایک نایاب لائبریری قائم کرتے ہوئے بچوں اور بچیوں کے لیے کیرتن (روحانی میوزیک) کی تربیت شروع کی۔
بنسری لال کے مطابق سوات میں اقلیتی برادری کی تاریخ بہت پرانی ہے، جو ماضی میں بالائی علاقوں اور دریائے سوات کے کناروں پر آباد تھی، تاہم 1917 میں میاں گل عبد الودود المعروف ’بادشاہ صاحب‘ کو ریاست سوات کا بانی مقرر کیا گیا تو زیادہ تر اقلیتی برادری دریائے سوات کے کناروں سے ہجرت کرکے مینگورہ شہر میں آباد ہوگئی۔