ہر دور کی سچائی الگ ہے۔ ہر دور کا کہانی سے سنجوگ الگ ہے۔ ہمارے بچپن میں فلم اور ٹیلی ویژن ڈرامے کا دور دورہ تھا، پھر کیبل ٹی وی آیا، انٹرنیٹ آیا، سٹریمنگ سروسز آئیں، اب ویب سیریز کی انٹری ہوئی ہے۔
آج کی کہانی جس سکرین کا تقاضا کر رہی ہے وہ سچائیوں کے جو بھید لے کر آ رہی ہے اس کو ہضم کرنا ویب سیریز کاہی حوصلہ ہے۔ ایسی ہی ایک سیریز اس وقت ’سیوک‘ ہے، جو vidly.tv پہ نشر ہو رہی ہے۔ پہلی قسط یو ٹیوب چینل پہ جاری کر دی گئی ہے، باقی کی اقساط کے لیے چینل تک رسائی ضروری ہے۔
بنیادی طور پہ کہانی انڈیا میں ہونے والے 1984 کے واقعات پر مبنی ہے لیکن اس کی زمین میں جڑیں بہت گہری ہیں۔
اس سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ تحریکیں جنم کیسے لیتی ہیں، انقلاب کی قیمت کیا ہوتی ہے، انقلابوں کی بنیاد کیسے پڑتی ہے، سرکار کی پالیسیاں انسان کو انسان کا دشمن کیسے بناتی ہیں اوراگر آپ کبھی تاریخ کے طالب علم رہے ہوں تو مکافات عمل کیا ہوتا ہے، اس کا احساس بھی سوال بن جاتا ہے۔
بھارت میں کسان تحریک نے 80 کی دہائی میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر لی تھیں کہ پوری دنیا کے میڈیا پہ اس کا چرچا ہوا۔ پنجابی کسانوں کی تحریک، الگ سر سبز زمین کی بات کیونکر ہوئی کہ وہاں سکھ محفوظ کیوں نہیں رہے تھے۔ ان کا قتل عام کیوں ہونے لگا۔
یہ کہانی کچھ جواب دیتی ہے تو کچھ سوال اٹھاتی ہے۔ انڈیا صرف ہندوؤں کا ہے۔ ان کے ہیروز ہندو ہیں۔ اس کے بعد ایک بڑی اقلیت سکھ ہیں۔ جن کو انڈیا کی سرزمین پہ جڑ سے مٹا دینا اتنا آسان نہ تب تھا، نہ اب ہے لیکن انتہا پسندی میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب کچھ ہوا۔
عبادت گاہوں کو آگ لگائی گئی۔ کسی ایک مذہب کی عبادت گاہ پہ حملہ پوری دنیا کی عبادت گاہوں سے شدید رد عمل کا باعث بنتا ہے۔
دو لاکھ سے زیادہ سکھوں کو مارا گیا۔ زبان کی بنیاد پہ صوبے کی تقسیم اور تشدد کے واقعات ہوئے۔
اس ویب سیریز کی کہانی کا تانا بانا اندرا گاندھی قتل کیس اور اس کے ساتھ ہی بھارت کی فوری بدلتی صورت حال پہ بنا گیا ہے۔
ودتیا ایک صحافی ہے اور اس کے والد کے قتل کے بعد ان کا اخبار ودتیا اور اس کے بھائی ادوند کی ملکیت ہے۔ ودتیا حقائق پہ بات کرنا چاہتا ہے جبکہ اس کا بھائی ملکی حالات کے مطابق محتاط ہو کر چلتا ہے کہ اسے اخبار بھی چلانا ہے۔
ادھر اس کی بہن نے اس مادہ پرستی اور مصلیحت پسندی سے الگ ایک دنیا بسالی ہوئی ہے جس پہ چلتے ہوئے وہ حقائق کی تلاش میں خطر ناک رستوں پہ نکل پڑی ہے۔ اس کو فیس بک کی دنیا سے ایک ایسے شخص نے رابطہ کر لیا ہے جس کے پاس اس کے والد کے قتل کیس اور پنجاب کے شب خون کے ثبوت ہیں۔
جس کے پاس پانے اور کھونے کو کچھ نہ بچے، وہ ودتیا جیسا ہی بے خوف ہو جاتا ہے۔
کہانی ایک پنجابی فلم سٹار جیت سنگھ کے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں کی موت سے شروع ہوتی ہے جو دل پریت سے شادی کرنے جا رہا تھا اوردونوں ایک رومانوی سین میں ایک ٹرک کی زدمیں آ کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
جیت سنگھ کی کہانی اب فلیش بیک میں شروع ہو گئی ہے، یونہی ودتیا کے والد کی زندگی فلیش بیک میں چل رہی ہے۔
یہ رواں طرز کی کہانی نہیں ہے، تجریدی آرٹ ہے۔ سیریز کی کہانی مکمل توجہ کھینچ لیتی ہے، پلاٹ اتنا مضبوط ہے کہ ایک سین بھی مس ہو گیا، کہانی ادھوری رہ گئی۔
آرٹ کا ایک ایسا نادر روپ بھی ہے جس کو سکرین کے منظر میں ڈھالنا اس لیے بھی دشوار تھا کہ ایک ملک کو اس کی تمام تر تہذیب سمیت دوسری زمین پہ اگانا بھی تھا۔
زبان و بیان، تہذیب و ثقافت اور جغرافیہ کواتنا بھر پور دکھایا گیا ہے کہ دوری کا گمان بھی نہیں ہو رہا۔
ہمیں شاید بہت سی باتیں یاد نہ ہوں مگر بابری مسجد کا واقعہ یاد ہو گا، گولڈن ٹیمپل کا سانحہ یاد ہو گا، اندرا گاندھی کا قتل یاد ہو گا۔
ان واقعات کے درمیان کیا کہانی تھی مصنف نے اس کو لکھا ہے جس کے لیے کرداروں میں پیشوں کا انتخاب سب سے جاندار ہے۔ صحافت فلم اور سیوک۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آٹھ اقساط پہ مشتمل یہ ویب سیریز آر ایس ایس اور بی جے پی کی پالیسیوں اور اس کے ردعمل پہ مبنی ہے۔ اب تک اس کی دو اقساط نشر ہو چکی ہیں۔
ساجی گل اس سیریز کے مصنف ہیں۔ انجم شہزاد ہدایت کار ہیں جب کہ موسیقی نوید ناشاد نے دی ہے۔ اس ٹیم کا ایک ایک فرد داد کا مستحق ہے۔
اس چونکا دینے والی سیریز کے مصنف انجم شہزاد سے پوچھنے کو بہت سوال تھے، ہم نے چند ہی پر اکتفا کی۔ انہوں نے بتایا، ’آئیڈیا تو ایسے آیا کہ دنیا اب گلوبل ولیج ہے۔ کہیں کچھ بھی ہوتا ہے تو اس کا اثر آپ پہ آتا ہے۔ یہ تو پھر ہمسایہ ملک ہے جس کی تہذیب میں بھی مماثلت ہے لہذا مجھے لگا یہی اس کہانی کا وقت ہے۔‘
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس کی سب سے اہم بات وہ زبان، وہ کلچر، وہاں کی میتھالوجی کو جاننا، اور اس کے مطابق ہر شے کودیکھنے کی فلاسفی تھی۔ زبان کو صیحیح معنی میں پیش کرنا اور منظر کرنا تھا۔ کچھ مجھے بچپن سے ہندی لکھنا پڑھنا آتی تھی اس نے بہت مدد دی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’تاریخ اور مذاہب بھی ان کا پسندیدہ موضوع رہا چنانچہ یہ مطالعہ اور شوق بہت کام آیا۔ ایک ماہ میں سیریز لکھنا تھی جس میں سابقہ شوق، مفصل مطالعہ اور مسلسل جو واقعات ہوتے رہتے ہیں، ان کی تفصیلات پڑھتے رہنے کی عادت نے بھی کام آئی۔ یہ سب مدد گار ثابت ہوا۔
’اس کے علاوہ انڈیا کی اپنی بنائی گئی دستاویزی فلمیں بہت معاون ثابت ہوئیں۔‘
یہاں اس کہانی کا پیش کیا جانا ان کے لیے کتنا دشوار تھا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’ویب کا دور ہے۔ ویب نے موضوع کو بہت آزادی دی ہے۔ اگر ٹی وی کی بات ہوتی تو شاید دشوار ہوتا۔ اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ہدایت کار انجم شہزاد کی دلچسپی اور کام کرنا۔ ہر ہدایت کار یہ کہانی کرنے کو تیار نہ ہوتا۔ یہ آسان نہیں تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس کو فلمانا، انڈیا کا ماحول تخلیق کرنا بہت مشکل تھا۔ آرٹ ٹیم نے بہت اچھا کام کیا ہوا ہے۔ کوئی تین چار زبانیں اس میں بولی گئی ہیں، جو ہم نہیں بولتے۔ اداکاروں کا ان کو پوری مہارت سے بولنا، کردار میں ڈھل جانا، یہ سب بہت مشکل تھا لیکن اب ہر طرف سے یہی فیڈ بیک آ رہا ہے کہ لگ رہا ہے کہ یہ انڈیا ہی ہے۔‘
پاکستان سے پہلی بار اس موضوع پہ کوئی ڈراما سکرین ہوا ہے اور دیکھنے والوں کے حواس پہ چھا گیا ہے۔ ویب سیریز زندگی کی تلخ سچائیوں کو بہت منفرد طرح پیش کرتی ہیں لیکن ٹی وی ڈرامے کی طرح جعلی نہیں لگتیں۔
ان سیریز نے مصنف اور ہدایت کاروں کو ہی کہانی کا وسیع کینوس نہیں دیا بلکہ باذوق ناظر کو بھی اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے۔
’سیوک‘ نے تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں روح پھونک دی ہے۔ جس کا چرچا بہت دور تک ہو گا۔