سندھ: سرد موسم میں سیلاب متاثرین کی مشکلات برقرار

طبی ماہرین کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ڈینگی بخار، ملیریا،  ڈائریا اور پیٹ کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

27 ستمبر، 2022 کو جامشورو میں ایک طبی کیمپ میں سیلاب متاثرین کا علاج کیا جا رہا ہے(اے ایف پی) 

موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی صوبہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور عارضی کیمپوں میں مقیم افراد کو دیگر مسائل اور سردی سے بچنے کے چیلنج کے علاوہ موذی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ درپیش ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ڈینگی بخار، ملیریا، ڈائریا اور پیٹ کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

سندھ سے سیلابی ریلے کو گزرے کئی ماہ بیت چکے ہیں، تاہم صوبے کے بیشتر متاثرہ اضلاع میں صورت حال گمبھیر ہے۔

ضلع دادو کی تحصیل جوہی سیلاب سے متاثر ہونے والا ایسا ہی ایک علاقہ ہے، جہاں انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔

جوہی کے رہائشی غلام مصطفیٰ سندھو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صرف نومبر میں بھکر جمالی میں بچوں اور خواتین سمیت کم از کم 34 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

غلام مصطفی کے مطابق ڈاکٹروں نے ملیریا کو ان اموات کی وجہ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری میڈیکل کیمپس عارضی طور پر قائم کیے جاتے ہیں، اور انسانی زندگیاں بچانے کے لیے ان میں کافی سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔

جوہی کے رہائشی کا مزید کہنا تھا ان کے علاقوں میں غیر سرکاری ادارے امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔

’تاہم صورت حال کا جائزہ لینے کی غرض سے ابھی تک حکومتی اہلکار یہاں نہیں آئے۔‘

مصطفی سندھو نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیت الخلا کی سہولت نہ ہونے کے باعث خواتین زیادہ گمبھیر مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔

’رفع حاجت کی خاطر انہیں رات ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے، جبکہ اکثر خواتین کو اس مقصد کے لیے کیمپوں سے دور جانا پڑتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بیت الخلا کے کیمپوں سے دور ہونے کے باعث خواتین وہاں جانے سے گریز کرتی ہیں، جس کی وجہ سے پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔

محکمہ صحت سندھ کی ترجمان عذرا فضل نے میڈیا کو بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پھیلنے والی بیماریوں میں سب سے زیادہ شرح ملیریا کی ہے، جس نے اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا جبکہ کیمپوں میں 41 ہزار کیسز ریکارڈ کیے گئے۔

صوبہ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا کے سب سے زیادہ کیسز ٹھٹھہ (51 ہزار 341) اور کاڑکانہ (50 ہزار 205) میں رپورٹ ہوئے۔

عذرا فضل کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور کیمپوں میں 25 لاکھ 34 ہزار سے زیادہ افراد کے ملیریا کے لیے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبائی اسمبلی میں کہا کہ صوبے میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ کے قریب مویشی ہلاک ہونے کے علاوہ ساڑھے آٹھ ہزار کلو میٹر سڑکیں، 20 ہزار کے قریب تعلیمی اداروں کی عمارتیں اور ایک ہزار سے زیادہ صحت کے مراکز تباہ ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اسمبلی کو بتایا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے صوبہ سندھ کو مجموعی طور پر 16 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اور امدادی کارروائیوں کو بڑھانے کی خاطر آئندہ مہینے ڈونرز کانفرنس ہونا ہے۔

وزیر اعلیٰ نے دعویٰ کیا کہ ماہ رواں کے آخر تک سندھ کے تمام متاثرہ علاقوں سے سیلاب کا پانی نکال دیا جائے گا۔

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے سندھ اسمبلی کو بتایا کہ صوبے میں 11 ہزار سے زیادہ فیکسڈ اور 17 ہزار موبائل امدادی کیمپ قائم کئے گئے۔

تاہم سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین نے متاثرین سیلاب کے لیے بیرون ملک سے آنے والی امداد میں خرد برد کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی شرمیلا فاروقی کے خیال میں اس سال آنے والی سیلاب جیسی اتنی بڑی قدرتی آفت کے اثرات ایک حکومت کے محدود وسائل کے ساتھ نبرد آزما نہیں ہوا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے سیلاب سے متاثر ہونے والے 24 لاکھ خاندانوں کو گھروں کی تعمیر کے لیے تین لاکھ روپے فی خاندان ادا کرے گی، جس کی پہلے قسط پچاس ہزار روپے ہو گی۔

’اسی طرح تباہ ہونے والی فصلوں کے لیے پانچ ہزار روپے فی ایکڑ ادا کیے جا رہے ہیں۔‘

صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے کوشاں ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کو اکیلے نہ چھوڑنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر حکومت کا ساتھ دیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان