خیبر پختونخوا حکومت نے معاشرے میں پائے جانے والے متشدد رویوں اور انتہا پسندی کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کی غرض سے ایک تحقیقاتی ادارہ قائم کیا ہے۔
مرکز برائے متشدد انتہا پسندی (سنٹر آف ایکسیلنس آن کاوٗنٹرنگ وائلنٹ ایکسٹریمزم) کے نام سے جانا جانے والا ادارہ نوجوانوں کو فیلوشپ پروگرام پیش کرے گا، جن کے تحت تحقیق اور دوسری سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں متشدد انتہا پسندی کی سوچ کے پیچھے کارفرما عوامل کو جاننے اور ان کے خاتمے کے لیے کام کیا جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کامران بنگش نے بتایا کہ مرکز کے قیام کا بنیادی مقصد صوبے کے نوجوانوں کو متشدد انتہا پسند رویوں سے باہر نکالنا اور معاشرے میں عدم برداشت کی فضا کو ختم کرنے کے لیے تحقیق کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں اپنی نوعیت کے اس پہلے مرکز میں ابتدا میں غصے پر قابو پانے کی تربیت دی جائے گی۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ معاشرے میں معاشی و معاشرتی مسائل، اور میڈیا پر منفی خبروں کے باعث معاشرے میں غصے کا رجحان بڑھ گیا ہے، اور اسی لیے حکومت نے اس مسئلے پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
کامران بنگش نے بتایا کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے اس خطے میں متشدد رویے پروان چڑھ رہے ہیں، جن کی حوصلہ شکنی کی غرض سے ایک تھینک ٹینک اور تحقیقاتی ادارے کی ضرورت موجود تھی۔
صوبائی وزیر نے بتایا کہ مذکورہ مرکز متشدد رویوں سے متعلق مسائل کے حل کی غرض سے پالیسی بنانے میں بھی مدد فراہم کرے گا، اور ان پالیسیوں پر عمل درآمد کی خاطر قانون سازی بھی کی جائے گی۔
مرکز برائے متشدد انتہا پسندی نوجوانوں کو فیلوشپ پروگرام کی پیشکش کرے گا، جس میں ان کی تربیت کے علاوہ انہیں تحقیقاتی اہداف سونپے جائیں گے۔
وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا مرکز کے چیئرمین ہوں گے، جبکہ ادارہ مکمل طور پر سرکاری فنڈز پر چلایا جائے گا۔
مبصرین کی رائے
پرامن معاشرے کے لیے متبادل بیانیے پر کام کرنے والے پشاور یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ کانفلیکٹ سٹڈیز کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی کا کہنا تھا کہ انتہا پسندی کی حوصلہ شکنی کے لیے قائم ہونے والا ہر تحقیقاتی ادارے کو ایک اچھا اقدام ہی قرار دیا جانا چاہیے۔ ’تاہم پہلے سے موجود اداروں کو بھی مضبوظ بنانے کی ضرورت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافی رفعت اللہ اورکزئی کا کہنا تھا کہ 2014 میں بننے والے نیشنل ایکشن پلان میں ایک نکتہ متشدد بیانیے کا کاونٹر بیانیہ بنانے کی ضرورت سے متعلق بھی تھا۔ اس مرکز کی خاص اور اچھی بات اس کا سویلین حکومت کی سرپرستی میں کام کرنا ہو گا، جبکہ ماضی میں بنائے گئے ڈی ریڈیکلائزیشن سنٹرز فوج چلاتی رہی ہے۔
رفعت اللہ نے بتایا کہ افغان جہاد کے بیانیے کو فروغ دینے کی غرض سے اس خطے میں ہزاروں دینی مدارس قائم کیے گئے اور انہیں اداروں کے طلبا نے جنگ میں بھی حصہ لیا۔ ’یہی رویہ مزید سخت ہوتا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں انتہا پسندی نے سر اٹھایا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ مرکز میں سائنسی بنیادوں پر کام کر کے معاشرے میں انتہا پسندی کے رجحاناے میں کمی لائی جا سکتی ہے۔