عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی پاکستان میں نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے کہا ہے کہ قرض کی ادائیگی سے متعلق حالیہ جائزے پر اب تک اسلام آباد سے ہونے والے مذاکرات سودمند رہے ہیں۔
سات ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ پروگرام کی سہولت کے تحت آئی ایم ایف سے آئندہ قسط کے اجرا کے لیے پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے کے درمیان نویں جائزہ رپورٹ پر بات چیت جاری ہے، جس کے مکمل ہونے پر پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ قرض کی قسط جاری کی جائے گی۔
عالمی مالیاتی ادارے کی پاکستان میں نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے بدھ کو انڈیپنڈنٹ اردو کو ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا: ’نویں جائزے کے تناظر میں آج تک ہونے والی بات چیت سود مند رہی ہے۔‘
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض پروگرام کی بحالی کا سٹاف لیول معاہدہ جولائی میں طے پایا تھا، جس کے تحت عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالر فراہم کرے گا۔
آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ نے کہا کہ ساتویں اور آٹھویں جائزے کی تکمیل کے تناظر میں بات چیت کے دوران پاکستان میں حالیہ سیلاب کے بعد معاشی صورت حال اور شرح تبادلہ کے ریٹ سمیت دیگر امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
روئیز نے کہا: ’آئی ایم ایف ایسی پالیسیوں پر بات چیت جاری رکھنے کا منتظر ہے جو سیلاب (کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں) انسانی اور بحالی کی ضروریات کو مناسب طریقے سے پورا کرتی ہیں۔‘
گذشتہ جمعے کو پاکستان کے مرکزی بینک نے کہا تھا کہ اس کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً چھ ارب 71 کروڑ ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں، جو 2019 کے بعد سب سے کم ہیں۔
پرائیویٹ بینکوں کے ذخائر لگ بھگ پانچ ارب 87 کروڑ ڈالر ہیں۔ یوں مجموعی طور پر ملک کے کل زرمبادلہ کے ذخائر 12 ارب 58 کروڑ روپے ہیں، جو گذشتہ چار سال میں سب سے کم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کہتی رہی ہے کہ ملک کا معاشی بحران سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے حال ہی میں کوشش کی جاتی رہی ہیں لیکن صورت حال قابو میں نہیں آ سکی۔
زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر کے تناظر میں بعض معاشی ماہرین ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی قرضوں کی بروقت ادائیگی مشکل ہو گی۔
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر وقار احمد نے گذشتہ ہفتے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں زر مبادلہ کے ذخائر کی موجودہ صورت حال کو پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا تھا: ’ہم یہ بھی نوٹ کر رہے ہیں کہ اس وقت کمرشل مالیاتی ادارے آپ (حکومت) کے ساتھ انگیج نہیں ہو رہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ تھوڑی سی خطرے کی گھنٹی ہے۔‘
ڈاکٹر وقار نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کی نویں جائزہ رپورٹ کے بعد صورت حال کچھ بہتر ہو جائے گی۔
پچھلے ماہ پاکستان کی وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ایوان کو بتایا تھا کہ ملک کو ڈیفالٹ کے خطرات کا قطعاً سامنا نہیں ہے۔