اس سال جون میں اپر دیر سے تعلق رکھنے والے 14 چرواہے خیبر پختونخوا کے اضلاع دیر اور سوات کی سرحد پر واقع پہاڑی سلسلے میں برفانی طوفان میں پھنس گئے تھے۔
شدید برفانی طوفان سے جان بچا کر لوٹنے والے ان چرواہوں میں سوات کے علاقے کبل سے تعلق رکھنے والے علی شاہ بھی ہیں، جن کے اس حادثے میں 100 مویشی مر گئے تھے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں علی شاہ کا کہنا تھا: ’ہم ہر سال وہاں جاتے ہیں، لیکن اُس جون میں ایسا طوفان میں نے 40 سال میں نہیں دیکھا تھا۔ جس میں ہماری 1400 بھیڑ بکریاں ہلاک ہو گئیں۔‘
چرواہوں کے طوفان میں پھنسنے کی اطلاع سوات اور دیر پہنچی اور سرکاری ریسکیو ٹیمیں روانہ کی گئیں، لیکن اس علاقے تک پہنچنے میں کم از کم 30 گھنٹے درکار تھے۔
علی شاہ نے بتایا کہ وہ لوگ پیدل چلتے رہے اور ضلع اپر دیر کے اوشیرئی درہ کے راستے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
سوات سمیت ملک بھر میں رواں سال معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں اور ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔
آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹیٹ ایمرجنسی کوآرڈینیٹر ولی محمد نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ چترال میں بعض جگہوں پر ماضی میں بہت کم بارشیں ہوتی تھیں، لیکن رواں سال وہاں بھی بارشیں اور سیلابوں نے ان علاقوں کو متاثر کیا ہے۔
ولی محمد کا کہنا تھا کہ معمول سے زیادہ بارشوں کے علاوہ برفانی طوفان بھی ماحولیاتی بتدیلی کی ایک وجہ ہیں، جیسا کہ مندرجہ بالا واقعے میں دیکھا گیا کہ جون کی سخت گرمی میں سوات کی پہاڑیوں پر شدید برفانی طوفان آیا۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث لوگوں کے روزگار کے ذرائع بھی متاثر ہوتے ہیں۔
لوئر چترال کے علاقے حفظ آباد، جس کی کچی آبادی رواں سال زیادہ بارشوں کے باعث بہہ گئی تھی، کے رہائشی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے اس سے پہلے اتنا زیادہ پانی نہیں دیکھا تھا۔
معمول سے زیادہ بارشوں اور سیلابی ریلوں کے علاوہ چترال کے بہت بڑا حصہ گلیشیئرز پھٹنے کے باعث بھی متاثر ہوا۔
ریش اپر چترال کا وہ علاقہ ہے جہاں ہر سال گلیشیئرز کے پھٹنے اور تیز سیلاب (فلیش فلڈ) کی وجہ سے سڑک بہہ جاتی ہے، اور پھر حکومت یہاں کے رہائشیوں کے گھر گرا کر دریا سے زیادہ دور نئی سڑک تعمیر کرتی ہے۔
اس سال ریشن کی سڑک کے بہہ جانے کے بعد صفت علی شاہ کا 16 کمروں پر مشتمل مکان بلڈوزروں کی زد میں آیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں صفت علی شاہ نے بتایا کہ ہر سال سڑک کے بہہ جانے کے بعد نئی روڈ دریا سے دور اور آبادی کے قریب بنائی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی مکان اس کی زد میں آتا ہے۔
ریشن میں صحافت کرنے والے شہزاد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زمین کی کٹائی ریشن کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس کی بڑی وجہ گلیشیئرز کا پانی ہے، اور اس سال اس گاوں کے تقریباً 20 گھر بہہ گئے ہیں۔‘
آغا خان ایجنسی فار ہیبیٹیٹ کے اہلکار ولی محمد نے بتایا کہ چترال میں ماضی میں مون سون بارشیں نہیں ہوتی تھیں، جبکہ اب بارشوں کا موسم سو کلومیٹر تک اندر آ گیا ہے، اور اس سے اب چترال بھی متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چترال میں زیادہ تر فلیش فلڈ ہوتے ہیں جو ساتھ بڑی مقدار میں ملبہ بہا کر لاتے ہیں، جس سے آبادیاں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔
ان کے خیال میں چترال کی 40 فیصد آبادی ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید بارشوں اور فلیش فلڈ کے خطرات سے دوچار ہے، جبکہ یہاں کی تقریبا 23 فیصد آبادی فلیش فلڈ کے راستوں پر آباد ہیں، جسے بہت زیادہ خطرہ ہے۔
ولی محمد نے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی چترال میں موجود 500 سے زیادہ گلیشیئروں کو متاثر کر رہی ہے، جو درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہر سال پھٹتے ہیں اور شدید سیلابوں کا باعث بنتے ہیں۔
جنگلات میں آگ لگنا
ایک طرف اگر معمول سے زیادہ بارشوں سے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقے متاثر ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف گرمی میں معمول سے کم بارشیں جنگلات میں آگ لگنے کا باعث بن رہی ہیں۔
خیبر پختونخوا محکمہ جنگلات کے مطابق رواں سال 23 مئی سے جون تک صوبے کے جنگلات میں آگ بھڑکنے کے 283 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 17 ایکڑ سے زیادہ زمین کو نقصان پہنچا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمہ جنگلات کی ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے زمین نمی کے اخراج کے باعث خشک ہو جاتی ہے، جس کے باعث گھاس زیادہ آسانی سے آگ پکڑ سکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرین ہاوس گیسوں کا اخراج اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آتے ہے۔
اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ رواں سال مئی میں بارشیں معمول سے اڑتالیس فیصد کم ہوئیں، اور سب سے زیادہ کم بارشیں پنجاب (89 فیصد ) جبکہ خیبر پختونخوا میں 79 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
ضلع سوات میں محکمہ جنگلات کے سربراہ وسیم احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جنگلات زیادہ خشک ہونے کی وجہ سے جلد آگ پکڑتے ہیں، جبکہ بعض اوقات سیاحوں کی جانب سے معمولی چنگاری کی وجہ سے بھی آگ لگنے کے واقعات پیش آتے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تین کروڑ ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے، جبکہ سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے ملک بھر میں 1500 سے زیادہ اموات ہوئیں۔
اسی حوالے سے رواں سال نومبر میں مصر میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والی کوپ کانفرنس کے دوران بھی پاکستان پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زیر بحث آئے۔
پاکستان نے کانفرنس کو بتایا کہ قدرتی آفات سے اسے 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے، اور اسی کانفرنس کے دوران ایک ‘لاس اینڈ ڈیمیجز‘ فنڈ کے اجرا کی بھی منظوری دی گئی۔
فنڈ کی اجرا پر پاکستان کے محکمہ خارجہ نے کہا: ’ہم اس فنڈ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس فنڈ سے ان ممالک کی مدد کی جائے گی جو موسیماتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔‘