’مجھے ڈر لگتا ہے کہیں یہ وقت باغی ہو کے میرا ماضی نہ دہرا دے،‘ ڈراما سیریل ’داماد‘ کی کہانی خوف کے اسی ستون پر کھڑی ہے۔
سجیلہ مرزا ایک وکیل ہیں اور پسند کی شادی کے شدید خلاف ہیں۔ انہوں نے اپنی دو بیٹیوں کی شادی اپنی ہی پسند سے کی اور ان کا خیال ہے کہ گھر میں اگر ایک بھی داماد نامناسب نکل آ جائے تو گھر خراب ہو جاتا ہے۔ چونکہ ان کا اپنا کوئی بیٹا نہیں ہے، لہذا ان کی سوچ محدود ہے۔
اس محدود ذہنیت کو وہ وکیل ہو کر بھی نہ بدل سکیں اور نہ سمجھ سکیں اور دونوں لالچی اور بد کردار مردوں کا انتخاب اپنی بیٹیوں کے لیے کرلیا۔
ایک داماد فرحان کا کردار تو سب کو دکھائی دے رہا ہے، دوسرے داماد عماد کا کردار اب کھلا ہے کہ وہ بھی سجیلہ کے گھر پر نظر لگائے بیٹھا ہے کہ بہت موقعے کی جگہ ہے اور اسے یہاں پلازہ بنانا ہے۔
اس نے اس منزل تک پہنچننے کے لیے دامادی کا ایک لمبا سفر طے کر کے سجیلہ کی کمزوریوں کو سمجھا ہے۔ ان کا سہارا لے کر وہ اپنے بھائی دانش کی شادی اپنی سالی ماہ نور سے کرنا چاہتا ہے۔ منگنی بھی ہو گئی ہے جبکہ ماہ نور نے اپنے کلاس فیلو سے کورٹ میرج کر رکھی ہے۔
اب ماہ نور کا شوہر اس کے مطالبے کے باوجود اسے طلاق نہیں دینا چاہتا۔ ماہ نور کی بہنوں کو بھی اس بات کا علم ہو گیا ہے کہ وہ شادی شدہ ہے۔
عماد نے جہیز کی مد میں ساس کے دیے گئے پیسے بھی خود رکھ لیے ہیں۔ بیوی کو بھی یہی کہا ہے کہ شادی کی شاپنگ اور جہیز عماد کی ذمہ داری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسے دال اتنی میٹھی ہو جائے تو عورت کو خود بھی شک ہو جاتا ہے۔ بس ڈرامے کے کرداروں کو اندازہ نہیں ہوتا کیونکہ کہانی اب چالیس پچاس اقساط تک کھینچی جاتی ہے ورنہ جس رفتار سے کہانی چلتی ہے، پہلی چار پانچ اقساط میں مکمل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد گلیمر بچتا ہے جو شادی کے دن دکھا کر پورا کیا جاتا ہے۔
سماج میں شادی کو خواب بنانے میں ٹی وی ڈرامے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سجیلہ کے ماضی میں بھی ایک جوانی کا سانحہ تھا، جس نے اس کی شخصیت مسخ کر دی ہے۔
وہ گھر سے اپنے محبوب کے لیے نکل تو جاتی ہے مگر محبوب خود نہیں آتا اور اس کے گھر واپس آنے تک اس کے ابا کا انتقال ہو چکا ہوتا ہے۔
تب مرزا صاحب، جنہیں ان کے ابا حضور نے ان کے لیے منتخب کیا ہوتا ہے، ان سے شادی کر لیتے ہیں لیکن نصیب کہ چار بیٹیوں کی پیدائش کے بعد مرزا صاحب بھی اس دنیا میں نہیں رہتے۔
سجیلہ کو ان حالات میں وکالت کر کے ماں اور باپ دونوں کا کردار نبھانا پڑتا ہے، جہاں اس کے نظریات سختی اور پختگی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ وہ تصویر کا روشن رخ دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہتی۔
ڈراما بس تصویر کا وہی روشن رخ دکھانے جا رہا ہے۔ ہر کسی کے تجربات اپنے ہوتے ہیں اور اس کے نتائج بھی الگ نکلتے ہیں۔
ہم کسی کو اپنے تجربات کی بنیاد پر حتمی فیصلہ نہیں دے سکتے کیونکہ کچھ فیصلے وقت کے اپنے ہاتھ میں بھی ہوتے ہیں۔ یہ پہلو اب ڈرامے میں دلچسپی پیدا کرنے جا رہا ہے۔
یہ کہانی شاہدہ خان کی ہے، جسے ٹی وی کے لیے عبدالحق خان اور رخشندہ رضوی نے تحریر کیا ہے اور اسے ’ہم ٹی وی‘ سے ہر ہفتے کی شب دکھایا جا رہا ہے۔
ڈراما سمجھ کر دیکھیے گا۔ داماد اتنے بھی خوف ناک نہیں ہوتے، اگر ہوتے ہیں تو سوچیے گا کہ ہمارے بیٹے، بھائی، والد بھی کسی کے داماد ہیں۔ کیا وہ بھی کیا اتنے ہی خوف ناک ہیں؟