پرندوں کے ساتھ لگاؤ انسان کی فطرت میں ہے اور دنیا کی خوبصورتی میں پرندوں کا بڑا کردار ہے۔ یہ لگاؤ کبھی شوق بھی بن جاتا ہے اور پھر ہر شوق کے لیے الگ تجارت الگ بازار بن جاتے ہیں۔
چڑیا گھر کا نام بھی پرندوں ہی کی وجہ سے ہے ورنہ وہاں پرندے کم اور جانور زیادہ ہوتے ہیں۔
ان الگ اور قدیمی بازاروں میں کابل شہر کے وسط میں واقع پرندوں کا قدیمی بازار (کاہ فروشی) بھی ہے جہاں لگ بھگ دو سو سال پہلے تجارتی اموال اتارنے کی غرض سے قافلوں کا پڑاؤ ہوا کرتا تھا تو تاجر اور مسافر اپنے مویشیوں کا چارہ یعنی گھاس اس بازار میں خریدتے تھے جس کی وجہ سے اس بازار کا نام کاہ فروشی یعنی گھاس فروشوں کا بازار پڑ گیا۔
محمد نادر جو گذشتہ 45 سال سے یہاں دوکاندار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بازار تقریباً سو ڈیڑھ سو برس سے زیادہ پرانا ہے۔ پہلے لوگ یہاں مویشیوں کا چارہ (گھاس) بیچتے تھے اور پھر یہاں سرکہ اور بال دھونے کی مٹی وغیرہ بیچی جانے لگی، پھر کچھ لوگ یہاں پرندے بیچنے لگے تو وقت گزرنے کے ساتھ یہ کام پھیل گیا اور گھاس بیچنے کا کام یہاں سے دہن چمن (دوسرے بازار) چلا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبہ پروان سے یہاں آنے والے دکاندار نقیب اللہ نے کہا کہ یہاں افغانستان کے مختلف صوبوں جیسے جلال آباد، تخار، مزار، قندوز، فاریاب اور ہرات سے لوگ آتے ہیں اور دوسرے ملکوں سے بھی پرندے یہاں لائے جاتے ہیں جن میں پاکستان، چین، ایران اور انڈیا سمیت افریقہ اور یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔
یہاں سینکڑوں اقسام کے پرندے ہیں جن میں کبوتر اور طوطوں کی زیادہ اقسام سرفہرست ہیں۔
بازار میں ایک جوان نے اپنے سلیٹی رنگ والے طوطے کے بارے میں کہا کہ ’یہ افریقی طوطا ہے اور اس کی قیمت ساٹھ ہزار (افغانی) ہے، یہ فارسی زباں میں بات کرتا ہے اور میں نے اسے پالا ہے۔‘
محمد نادر نے کہا کہ یہاں مہنگے پرندے بھی زیادہ ہیں مثلاً کبوتر اگر ’دو چپ‘ قسم کا ہو تو شوقین لوگ اسے ایک لاکھ افغانی میں بھی خریدتے ہیں لیکن پچاس افغانی کے کبوتر بھی ملتے ہیں۔