نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سیکس سے بھرپور میسجنگ جسے عام اصطلاح میں ’سیکسٹنگ‘ کہا جاتا ہے، آپ کے ذاتی تعلقات کے لیے زہر قاتل ہے۔
جی ہاں، اگر آپ اپنے ساتھی سے سیکسی پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں تو بظاہر آپ کے تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں لیکن کینیڈا کے ماہرین کے مطابق حقیقت اس کے برعکس ہے۔
یونیورسٹی آف البرٹا سے منسلک تحقیق کاروں نے 615 افراد کے تعلقات پر ’سیکسٹنگ‘ کے اثرات کا مشاہدہ کیا جس میں بیشتر نے اپنے ساتھیوں سے سیکسی تصاویر بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس مطالعے کے جو نتائج سامنے آئے وہ یقینی طور پر حیرت انگیز تھے۔
تحقیق کاروں کے مطابق اپنے ساتھی کو یہ پیغام بھیجنا کہ ’تم نے کیا پہن رکھا ہے؟‘ آپ کے تعلق کو پُرلطف بنا سکتا ہے اور جو لوگ باقاعدگی سے اپنے پارٹنرز کو ’سیکسٹ‘ کرتے ہیں وہ اپنے جنسی تعلقات کے حوالے سے ان لوگوں زیادہ مطمئن ہوتے ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔
تاہم اس تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بہت زیادہ ’سیکسٹنگ‘ تعلقات کے لیے سرخ جھنڈی بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
مطالعہ کے مطابق ان جوڑوں کے درمیان جن میں ’سیکسٹنگ‘ کا تبادلہ ہوتا ہے وہ زیادہ جھگڑالو ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے نہ صرف زیادہ ’اِن سکیور‘ ہوتے ہیں بلکہ ان میں ثابت قدمی کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔
بکثرت اور شدت سے ’سیکسٹنگ‘ کرنے والے جوڑے اپنے تعلق کے دوسرے پہلوں کے حوالے سے کم مطمئن ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سٹڈی کو شروع کرنے والے مصنف اور سائنس دان ایڈم گیلوین کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ’سیکسٹنگ‘ کرنے والوں کی توجہ سیکس پر زیادہ مرکوز رہتی ہے اور وہ اپنے تعلق کے باقی پہلوؤں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
اس میں چونکا دینے والی بات نہیں ہے کہ ’سیکسٹنگ‘ کرنے والے جوڑے کے تعلقات میں ٹیکنالوجی کا زیادہ عمل دخل رہتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے موبائل پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی پر انحصار ان کے درمیان مسائل کی بڑی وجہ ہوتی ہے کیوں کہ وہ ایک دوسرے سے ذاتی طور پر نہ ہی ملتے ہیں اور نہ اپنے تعلق کو مضبوط کر پاتے ہیں کیوں کہ فون اور ’سیکسٹنگ‘ ہی ان کے درمیان رابطے کا بنیادی ذریعہ بن جاتا ہے۔
گیلوین کا ماننا ہے کہ تعلق میں تال میل پر ٹیکنالوجی کی برتری مسائل کی اصل جڑ ہے۔
’ایسے ساتھی محض اپنے آخری مقصد [جنسی عمل] کا حصول چاہتے ہیں وہ بھی بغیر کسی محنت کے، ایک دوسرے کی بات سنے اور کہے بغیر اور اچھا وقت ساتھ گزارے بغیر۔‘
گیلوین کا خیال ہے کہ ایسا اس لیے بھی ہے کیوں کہ یہ بات ہماری نفسیات میں شامل ہو گئی ہے کہ ہمیں ہر چیز فوری طور پر چاہیے ہوتی ہے۔
تو پھر اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ گیلوین کہتے ہیں کہ ’انہیں چاہیے کہ وہ اپنا فون پھینک کر پرانے فیشن کی طرف لوٹ آئیں جہاں وہ دو بدو بات چیت کر سکیں، ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار سکیں بجائے اس کے کہ وہ ’سیکسٹنگ کے ذریعے شارٹ کٹ تلاش کریں۔‘
تو اگلی بار آپ اپنے ساتھی کے ساتھ بیڈروم میں وقت گزارنا چاہیں تو اپنا فون پھینک دیجیے۔
© The Independent