زندگی میں سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے بس آپ کو سبق سکھانے والا استاد ہونا چاہیے۔
آنکھ کا کھلنا کیسا ظالم سبق ہے۔ نہ کھلے آنکھ، ہیں جی؟ پھر کیا ہو گا؟ کھلے اور بند ہو جائے اور پھر نہ کھلے؟ کھل جائے اور سامنے کوئی بھیانک منظر ہو۔ تو نارمل حالات میں آنکھ کھلنا دیکھیں کتنے سبق سکھا گیا؟
لوگ سیکھنے کے شوقین ہیں اور جو بندہ یہ بات جانتا ہے وہ فل ٹائم چالو رہتا ہے ساری زندگی اسی مشن پہ، کامیاب بھی رہتا ہے۔
آنکھ کھل گئی، اب سانس لیا آپ نے۔ سبحان اللہ۔ سانس ہی نہ آئے اگلی تو پھر؟ کچھ کر لو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں! سانس پھنس بھی سکتی ہے، ٹھسکا لگ سکتا ہے، فرض کریں ایک دن صبح چھت گر جائے اور سانس لینے والا ہی دب جائے نیچے، تو سانس کدھر جائے گی؟ ہے نا سبق۔
آنکھ کھل گئی، سانس لے لی، اب موبائل اٹھاتے ہیں آپ۔ عقل مند انسان اس میں بھی آپ کو بڑی بڑی نشانیاں دکھلائے گا۔ موبائل اٹھاتے ہی اگر کوئی بری خبر آپ کی منتظر ہو تو کیسا لگے؟ آپ کی اپنی ہی کوئی آڈیو ویڈیو لیک ہوئی پڑی ہو، کوئی ایک دم کا خرچہ سامنے آیا پڑا ہو؟ یہ سب نہیں ہے ۔۔۔ تو بس گرو جی کہتے ہیں کہ آج کا دن اچھا شروع ہو گیا، اسی بات پہ دھمال ڈالو، خواہ مخواہ میں خوش ہو جاؤ، مگر کیوں؟ کیونکہ بچے جمہورے تم سیکھنا چاہتے ہو۔
چلیں، موبائل دیکھ لیا۔ اب منہ ہاتھ دھونے کو اٹھے۔ سوچیں کہ بستر سے نکلیں اور جوتے میں سانپ یا بچھو چھپا ہو، وہ نہیں ہوا تو پہلا قدم رکھتے ہی آپ پھسل پڑیں، کوئی ہڈی ٹوٹ جائے ۔۔۔ یہ بھی نہیں ہوتا تو فرض کریں ٹونٹی میں پانی ہی نہ آ رہا ہو ۔۔۔ کسی بھی ایک نہ ہونے والے فرضی حادثے کو بنیاد بنا کے آپ کو سمجھایا جائے گا کہ قدرت نے اگر آپ کو بچا لیا ہے تو بس جو کرنا ہے آج ہی کے دن کر لیں، کل کیا پتہ انہی میں سے کچھ ہو جائے۔
منہ ہاتھ دھو آئے۔ ناشتے کی نیت باندھی اور پتہ لگا انڈے ختم ہیں گھر میں۔ صرف اس ایک بات پہ دنیا بھر میں انڈوں اور مرغیوں کی اہمیت پہ لمبا لیکچر دیا جا سکتا ہے۔
یہ سب باتیں یا ان سے ملتے جلتے کسی بھی عام سے واقعے کو اٹھانا اور سامنے والے کو اس کی اہمیت بتا کے جادو میں باندھ لینا، بس یہ گُر ہے اور بہت ہی بڑا کمائی کا ذریعہ بھی۔
پوری تاریخ دیکھ لیں، اپنی ریڈنگ ہیبٹ دیکھ لیجے، سادے واقعے سے نکلا ہوا بڑا سبق آپ کو متاثر کرتا ہے۔ چونکہ آپ سیکھنا چاہتے ہیں اس لیے جسے یہ فارمولا سمجھ آ گیا وہ آپ کو سکھانا شروع کر دیتا ہے۔
پھر جو ظلم ہوتا ہے وہ یہ کہ عام طور پہ ان سب کہانیوں میں سے ہر طرح کا سبق نکالا جا سکتا ہے لیکن آپ چونکہ قصہ گو کو استاد مانتے ہیں اس لیے کسی دوسری لائن پہ سوچتے ہی نہیں۔
وہ یاد ہے کہ ایک آدمی نے تصویر بنائی اور چوک پہ رکھ دی۔ ساتھ لکھا کہ جس نے اصلاح کرنی ہے آئے اور مجھے بتائے۔ چھتیس بندے گزرے پاس سے، ہر ایک نے خرابی نکال دی۔ اب اس نے ایک برش رکھ دیا اور کہا کہ بھئی جو بھی مسئلہ ہے تصویر میں، آئیے اور ٹھیک کر دیجے۔ اس مرتبہ شام تک کوئی نہیں آیا۔
ٹھیک ہے، تنقید کرنا آسان لیکن کوئی بھی کام کر کے دکھانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ ایک سبق ہو گیا۔
دوسرا سبق یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تصویر چوک میں رکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ بھئی جو تنقیدی آنکھ رکھتا ہے اسے دکھائیں، ہر چیز سب کو سمجھ نہیں آتی ۔۔۔ بات ختم، کہ نہیں؟
دوسرا سبق یہ بھی ہے کہ تصویر بنانے والا کوئی ہلکا مصور تھا بے چارہ، رنگ خشک نہیں ہوئے اور دنیا کے سامنے لے آیا کہ سب دیکھیں اور رائے دیں۔ تصویر بناتا، دو تین ماہ اسے رکھتا، کچھ نوک پلک سنوارتا، کیا خبر تب چوک میں رکھنے پہ سب تعریف ہی کرتے!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیسرا سبق یہ نکلتا ہے کہ یہ کہانی پوری غلط مفروضے پہ کھڑی ہوئی ہے۔ پورے دن میں ایک بھی انسان ایسا نہیں گزرا پاس سے کہ جو مصوری کرنا جانتا ہو؟ کیا خبر کوئی ہوتا اور وہ فی الحقیقت اس تصویر کو شاہ کار بنا دیتا ۔۔۔ ایسا بھی ممکن تھا کہ اناڑی کوئی نوجوان پاس سے گزرتا اور برش لے کے تصویر کی ایسی تیسی پھیر دیتا۔
ایک حقیقت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تصویر واقعی اس قدر گئی گزری ہو کہ اس پر کسی نے اصلاح کے لیے بھی وقت ضائع کرنا پسند نہ کیا ہو ۔۔۔ کیا خیال ہے؟
یہ بات بہرحال طے ہے کہ مصور خود سبق لینا چاہتا تھا اور اسے چنگی طرح سے مل بھی گیا۔ اصولی طور پہ اسے چاہیے تھا کہ یہ واقعہ کسی کو نہ بتلاتا اور چپ کر کے پی جاتا۔ آپ کی بنائی تصویر، فلم، ویڈیو یا کسی بھی چیز میں سو خامیاں نکلیں تو آپ کسی کو سنائیں گے یہ واقعہ؟ بزتی آلی گل ہوندی اے!
عرض یہی ہے کہ ایویں ادھر ادھر کی باتوں سے متاثر ہونا چھوڑ دیں۔ سوچیں کہ جس کہانی سے آپ متاثر ہوئے اس کا دوسرا رخ کیا ہو سکتا تھا یا اس میں سے مزید کیا امکان نکل سکتے تھے۔
اب جائیں، مجھے یہیں چھوڑیں، جس کہانی سے آپ بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اسے اٹھائیں، چیک کریں ۔۔۔ سبق کی ڈوز زیادہ ہوئی وی تھی یا فقیر غلط کہہ رہا تھا؟