یکم جنوری 2022 کی صبح کو جاگتے ہوئے بہت کم لوگوں نے سوچا ہوگا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا واحد واقعہ وقوع پذیر ہونے ہی والا ہے جو ہم سب کی زندگی پر اس طرح کے تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔
لیکن 24 فروری کو روس کے صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین اور کرہ ارض کو تابع کرنے کا فیصلہ کیا – ہم سب اور آنے والی نسلوں کے لیے نیا عالمی نظام قائم کرتے ہوئے۔ اس کی گونج خوراک کی قلت سے لے کر قحط جیسی صورت حال سمیت مصارف زندگی کے بحران کا سبب بننے تک سنائی دیتی رہی۔
اور یوں یہ پریشان کن سال رہا – یوکرین اور کشش ثقل کے مرکز کے طور پر وہاں جاری جنگ کے پیش نظر۔ لیکن کتنی دیر تک؟ یہ تنازع اتنا تباہ کن رہا ہے کہ اس نے یورپ میں ایسے بدترین انسانی اور تارکین وطن کے بحران کو جنم دیا کہ جس نے بدقسمتی سے دیگر عالمی آفات اور جنگوں کو ڈھانپ دیا۔ عالمی توجہ اب اچھی شاندار تصویروں اور الفاظ میں بند غیر معمولی مناظر پر مرکوز ہے۔
لیکن جیسے جیسے توپوں کی جنگ شروع ہو رہی ہے، جیسے جیسے لکیریں گہری ہوتی جاتی ہیں، جیسے جیسے خونی لڑائیاں شاید بہت کم فوائد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں، مجھے خدشہ ہے کہ اگلے ماہ روس کے حملے کا ایک سال پورا ہونے پر تھکاوٹ اپنی جگہ لے لے گی۔ یہی وہ بات ہے جس پر پوتن انحصار کر رہے ہیں۔ یہ صحافیوں اور امدادی کارکنوں کا کام ہو گا کہ وہ کہانی کو زندہ اور متعلقہ رکھیں۔
کسی حد تک تھکاوٹ پہلے ہی اپنی جگہ لے چکی ہے۔ جیسا کہ میں نے بہت سارے تنازعات کا احاطہ کیا ہے، دنیا کی توجہ حاصل کرنا ریت کی گھڑی کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ شام کا تنازع جو 12 سال سے جاری ہے اسے عالمی نیوز پلیٹ فارمز پر اتنی کم جگہ ملی ہے کہ مجھ سے باقاعدگی سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا جنگ ختم ہو گئی ہے۔ اتنی ہی طویل جنگ سے تباہ حال ملک لیبیا میں حکومت کی حیثیت کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہو گا۔
تکرار بھی توجہ کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2021 میں، میں غزہ کی ایک سڑک پر فضائی حملے کے نتیجے میں پڑنے والے گڑھے میں کھڑی تھی۔ میں نے غزہ پر 2012 اور 2014 سمیت ساتھ 2021 میں بھی بمباری ہوتے دیکھی۔ لڑائی کی پریشان کن یکسانیت بحران کو نظر انداز کر دیتی ہے۔
یوکرین بھی 2023 میں اسی انجام کا شکار ہو سکتا ہے، خاص طور پران حالات میں کہ جب جنگ کے اندر ہونے والی لڑائیاں مسلسل ناقابل امتیاز ہوتی جا رہی ہیں: کیئف کے علاقے کی آزادی سے لے کر خارکیو اور خیرسون تک۔
یہ صورت حال یورپ اور مغرب کے داخلی مسائل کی وجہ سے بدتر ہو گئی ہے۔ یوکرین میں جنگ جو وبائی مرض کے نقش قدم پر چل رہی ہے اس نے یورپ میں ریکارڈ بلند افراط زر میں کردار ادا کیا ہے – جو بلاتفریق تقریباً 11 فیصد تک پہنچ گئی ہے (لیکن پولینڈ میں 15.6 فیصد تک زیادہ ہے)۔ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے لوگ خرچ کرنے سے گریز کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں یوکرین کے لیے عطیات میں کمی آئی ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر بلاشبہ کیئف کو بہت تشویش ہے۔
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ صدر زیلنسکی نے جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی بار یوکرین سے باہر نکلنے کا غیر معمولی قدم اٹھایا اور امریکہ کا دورہ کیا اور حمایت حاصل کی۔ یوکرینی رہنما نے امریکہ میں صدر بائیڈن اور کانگریس سے مزید اور مسلسل امریکی امداد کے کے لیے جذباتی درخواست کی- خاص طور پر ہتھیاروں کے لیے۔
یوکرین کی امداد جاری رکھنے کی افادیت کے بارے میں ایوان نمائندگان کے ارکان کے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ کانگریس میں ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے یوکرین کی امداد کو خیرات نہیں بلکہ ’عالمی سلامتی اور جمہوریت میں سرمایہ کاری‘ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’اس جنگ کو منجمد یا ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔‘ انہوں نے نے امریکہ کی سیاسی اشرافیہ سے کہا کہ ’اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امید ہے کہ سمندر یا کوئی اور چیز تحفظ فراہم کرے گی۔۔۔ بہت کچھ دنیا پر منحصر ہے۔ دنیا میں بہت کچھ آپ پر منحصر ہے۔‘
یہ انسانوں کی دنیا کی بدقسمت حقیقت ہے۔ ہماری توجہ کا دائرہ اور جیب لامحدود نہیں ہے۔ وہ ہو بھی نہیں ہو سکتے۔ خطرہ یہ ہے کہ یہ براہ راست ماسکو کے ہاتھوں میں کھیلتا – پوتن کے لیے عالمی بے حسی ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے کیوں کہ اگر یوکرین کی امداد میں کمی آئی تو تو پوتن کو جیتنے کا بہتر موقع مل جائے گا۔ اگر ہم اس کہانی سے، یوکرین کی حالت زار سے تھک گئے، تو ہمیں اس سطح کے عالمی حملے کے عام سی بات میں تبدیل ہونے کا خطرہ لاحق ہو گا۔
ہم ایک خطرناک عالمی مثال قائم کرنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ لہذا رپورٹرز کے طور پر ہمارے کام کا ایک حصہ اس سے لڑنا ہے – وہ کہانیاں سنانے اور بنانے کا عمل جاری رکھتے ہوئے جن کی اہمیت ہو اور لوگوں کو متوجہ کریں۔ ان مظالم کو اجاگر کرتے رہنا جو کیے جا رہے ہیں۔
© The Independent