صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی مصروف ترین سڑکوں میں سے ایک پر سیاہ فیس ماسک اور پولیس کیپ پہنے حلیمہ عمران سخت سردی میں رکشے سے باہر نکلیں۔
30سالہ حلیمہ عمران کوئٹہ کی ٹریفک پولیس فورس میں بھرتی ہونے والی پہلی چار خواتین کانسٹیبلز میں سے ایک ہیں۔
20 لاکھ سے زائد آبادی والا یہ شہر کاروں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے بار بار ٹریفک جام کی وجہ سے مشہور ہے۔
پاکستان بیورو برائے شماریات کے مطابق بلوچستان میں خواتین کی لیبر فورس کا حصہ صوبے میں خواتین کی کل آبادی کا صرف 5.06 فیصد ہے۔ یہ ملک میں سب سے کم شرح ہے۔
یہ صوبہ ملک کا سب سے زیادہ قدامت پسند اور معاشی طور پر پسماندہ ہے، خواتین کے لیے صحت اور تعلیم کے اعداد و شمار بھی انتہائی کم ہیں۔
لیکن حلیمہ عمران بچپن سے ہی پولیس وومن بننا چاہتی تھیں۔ ان کا یہ خواب 2016 میں اس وقت پورا ہوا جب وہ ضلعی پولیس میں بھرتی ہوئیں۔
کوئٹہ کے مصروف جناح روڈ پر ٹریفک کا انتظام سنبھالتے ہوئے حلیمہ عمران نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں بچپن سے ہی پولیس اہلکار بننا چاہتی تھی اور میں نے اپنے والدین کو اپنی خواہش کے بارے میں بتایا تھا جس پر انہوں نے مجھے پولیس میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔
’تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد، میں نے اپنے سینیئر افسران سے درخواست کی کہ وہ مجھے ٹریفک پولیس میں ٹرانسفر کریں کیونکہ میں بلوچستان میں دیگر خواتین کے لیے ایک نئی مثال قائم کرنا چاہتی تھی۔‘
کوئٹہ کے 700 ٹریفک وارڈنز انتہائی مصروف ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے لیے پورے شہر میں ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے سگنلز ہیں۔
شہر میں دو لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ گاڑیاں، سات لاکھ موٹر سائیکلیں، 15 ہزار رکشے اور شہری بھی ہیں جو ٹریفک قوانین کا احترام شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔
لہٰذا حلیمہ عمران اور ان کی تین دیگر خواتین ساتھیوں کا کام آسان نہیں۔ انہیں نہ صرف شدید ٹریفک بلکہ دقیانوسی تصورات سے بھی نمٹنا ہوگا۔
حلیمہ عمران خان نے کہا کہ ’ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواتین کو کام پر آنے جانے میں دشواری ہوتی ہے لیکن ہم آٹو رکشہ پر ڈیوٹی پر آتی ہیں۔
’شروع میں جب لوگوں نے دیکھا کہ خواتین ٹریفک کانسٹیبل سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کر رہی ہیں، تو انہیں تھوڑا سا عجیب محسوس ہوا کیونکہ یہ ایک قبائلی صوبہ (بلوچستان) ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ، اب لوگ ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔‘
ٹریفک پولیس کے حکام کو امید ہے کہ کوئٹہ میں خواتین ٹریفک پولیس وارڈنز کی وجہ سے خواتین ڈرائیوروں کے لیے پولیس سے بات چیت کرنے میں آسانی پیدا ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوئٹہ میں ٹریفک پولیس کے سپرنٹنڈنٹ جاوید ملک نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ابتدائی طور پر محکمے نے چار خواتین ٹریفک کانسٹیبلز کو تعینات کیا ہے جبکہ مستقبل میں ایک خاتون ٹریفک افسر بھی تعینات کی جائیں گی۔‘
جاوید ملک نے کہا کہ ’حالیہ برسوں میں کوئٹہ کے اندر خواتین ڈرائیوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک پولیس کو ان راستوں پر خواتین وارڈنز تعینات کرنے پڑے جہاں خواتین ڈرائیورز اکثر آتی ہیں۔
’کوئٹہ کے قبائلی معاشرے میں، خواتین ڈرائیور مرد سارجنٹوں سے بات کرنے میں ہچکچاتی تھیں۔ اب خواتین وارڈنز ان کی دستاویزات چیک کر سکتی ہیں اور ٹریفک قوانین کے بارے میں ان کی رہنمائی کر سکتی ہیں۔‘
پولیس اہلکار نے کہا کہ ’حتیٰ کہ جہاں مرد ڈرائیور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہاں بھی وہ (خواتین وارڈنز) مرد سارجنٹ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں، اور ہمیں عوام کی جانب سے مثبت فیڈ بیک ملا اور لوگوں نے اس اقدام کو پسند کیا ہے۔‘
حلیمہ عمران نے کہا کہ ’وہ روزانہ اوسطاً تقریباً دو درجن مرد ڈرائیوروں کو روکتی ہیں اور انہیں کبھی بھی ان سے خطرہ محسوس نہیں ہوا۔‘
کوئٹہ کے سرینا چوک پر ایک خاتون ٹریفک پولیس وارڈن نے 22 سالہ حبیب الرحمان کو روکا اور اپنی گاڑی کی دستاویزات دیکھانے کا کہا، انہوں نے خواتین وارڈنز تعینات کرنے کے اقدام کو سراہا۔
حبیب الرحمان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’لوگ خواتین وارڈنز کی حمایت کر رہے ہیں اور ہمیں فرائض کی انجام دہی کے لیے ان کے اعتماد کو بڑھانے کی خاطر ان کا احترام کرنا چاہیے۔
’جب سے خاتون کانسٹیبل کو تعینات کیا گیا ہے، (غیر قانونی) گاڑیوں اور لائسنسوں کے خلاف کارروائی بہت بہتر ہے۔ وہ خواتین ڈرائیوروں کے لیے بہت مددگار ہیں کیونکہ اب بہت سی خواتین ڈرائیونگ کر رہی ہیں۔‘