اقوام متحدہ نے اسرائیلی وزیردفاع کے مسجد الاقصیٰ کے متنازع دورے کے بعد سلامتی کونسل کا ہنگامی آج (جمعرات کو) اجلاس طلب کر لیا۔
اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کا یہ ہنگامی اجلاس متحدہ عرب امارات اور چین کی درخواست پر طلب کیا گیا ہے۔
خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان اور ترکی کے علاوہ اسرائیل کے اتحادی امریکہ سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک نے اسرائیلی وزیر اتامربن گویر کے اس متنازع دورے کی مذمت کی ہے۔
پاکستانی دفترخارجہ کی جانب سے جاری ایک مذمتی بیان میں کہا گیا کہ ’یہ اقدام مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں پہلے سے کشیدہ صورت حال کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اسرائیل غیر قانونی اقدامات بند اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مسلم مذہبی مقامات کے تقدس کا احترام کرے۔‘
پاکستان نے فلسطینی عوام کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کا اعادہ بھی کیا۔
ادھر اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس میں اسلامی اور مسیحی مقامات کے تحفظ کی خاطر بیت المقدس میں تاریخی حیثیت کے دفاع اور تحفظ کا فیصلہ بین الاقوامی برادری کرتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم سلامتی کونسل میں دیے جانے والے خوبصورت بیانات سے مطمئن نہیں ہوں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان پر ٹھوس انداز میں عمل درآمد کیا جائے۔‘
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ریاض منصور نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ نہ صرف مسجد الاقصیٰ سمیت مسلمانوں کے مقدس مقامات بلکہ قبرستانوں سمیت مسیحی مقامات کے خلاف بھی ’جارحیت‘ کا ارتکاب کر رہا ہے۔
اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ منگل کے روز اسرائیل کے نئے قومی سلامتی کے وزیر اتامربن گویر کے دورے سے علاقے میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔
گذشتہ ہفتے چھٹی بار وزیراعظم بننے والے بن یامین نتن یاہو نے اتامربن گویر کے دورے پر دنیا کے ردعمل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل اس مقام پر سٹیٹس کو سختی سے برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سٹیٹس کو میں تبدیلی کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنی چھٹی مدت اقتدار میں بن یامین نتن یاہو اسرائیلی کی تاریخ میں سب سے انتہا پسند دائیں بازو کی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان مقاصد میں مغربی کنارے کی بستیوں کو وسعت دینا اور مقبوضہ علاقے کو ضم کرنا بھی شامل ہے۔
مسجد الاقصیٰ اسرائیل کے زیر قبضہ مقبوضہ بیت المقدس میں واقع ہے اور یہ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ یہ یہودیوں کے لیے بھی مقدس جگہ ہے۔
سنہ 1967 میں اسرائیل کی جانب سے اس مقام پر قبضہ کرنے کے بعد سے یہودیوں کو وہاں جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
حالیہ برسوں میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، جن میں سے زیادہ تر اسرائیلی قوم پرست ہیں، نے اس احاطے میں خفیہ طور پر اپنی عبادات کی ہیں جس کی فلسطینیوں نے مذمت کی ہے۔
مغربی حکومتوں نے متنبہ کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے مقبوضہ بیت المقدس کے مقدس مقامات پر انتظامات کو خطرہ لاحق ہے۔
اتامربن گویر کے دورے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی۔ مذمت کرنے والے ممالک میں اسرائیل کا دیرینہ اتحادی امریکہ بھی شامل ہے۔
اے پی کے مطابق اقوام متحدہ میں اردن کے سفیر محمود ضیف اللہ حمود نے کہا کہ ’یہ انتہا پسندانہ اقدام ہے جس کا مقصد تشدد کی ایک نئی لہر پیدا کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سلامتی کونسل کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لے اور اس طرح کی کوششوں کو روکے۔‘
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے بدھ کو اس بات کا اعادہ کیا کہ سکریٹری جنرل ’سب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جن سے مقبوضہ بیت المقدس اور اس کے آس پاس کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گذشتہ برسوں کے دوران اسرائیل اور فلسطین کے تنازع پر متعدد قراردادیں منظور کی ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔