اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی قبضے کے جواب میں قانونی نتائج کا فیصلہ کرے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کو جنرل اسمبلی میں اس قرارداد کے حق میں 87 جبکہ مخالفت میں 26 ووٹ ڈالے گئے، حق میں ڈالے جانے والے ووٹ میں وہ مسلمان ممالک بھی شامل تھے جو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا چکے ہیں۔ اس قرارداد کو روس اور چین کی حمایت بھی حاصل تھی۔
جبکہ 53 ممالک نے اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس قرارداد پر مغربی ممالک کے درمیان واضح تقسیم دیکھنے کو ملکی، تاہم تمام مسلمان ممالک اس معاملے پر یکجا دکھائی دیے۔
قرارداد میں عالمی عدالت انصاف سے کہا گیا کہ وہ ’فلسطینی ریاست کے قیام، فلسطینی شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی خلاف ورزی کرتے اسرائیلی اقدامات پر قانونی نتائج کا تعین کرے۔‘
اجلاس کے دوران اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور کا کہنا تھا کہ اس ووٹنگ نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی نئی حکومت کو ان کے ’نسل پرستی اور قابض سوچ پر مبنی اقدامات‘ کے حوالے سے پیغام بھیجا ہے۔ انہوں نے قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک کی بھی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ممالک دھمکیوں اور دباؤ کا شکار نہیں ہوئے۔‘
تاہم اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاد ایردن نے اس قرارداد کو اقوام متحدہ کے لیے ایک دھبہ قرار دیا ہے۔
قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر روک دے لیکن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کوئی قانونی اختیار نہیں رکھتی۔ تاہم سلامتی کونسل کی قرارداد ایک قانونی حیثیت رکھتی ہے لیکن وہاں اسرائیل کے اتحادی امریکہ کی ویٹو کی طاقت اسرائیل کا دفاع کرتی رہی ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور جرمنی نے اس قرارداد کی مخالفت کی تاہم فرانس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا لیکن قرارداد کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک میں پرتگال شامل تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی بیت المقدس پر 1967 کی جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا جبکہ فلسطینی ان تینوں علاقوں کو اپنی آزاد ریاست کےحصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تاہم اسرائیل مغربی کنارے کو متنازع علاقہ قرار دیتے ہوئے وہاں پانچ لاکھ یہودی آباد کاروں کے لیے درجنوں بستیاں تعمیر کر چکا ہے۔ اسرائیل مشرقی بیت المقدس کے پورے شہر کو بھی اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ شہر کے مشرقی حصے میں بھی دو لاکھ سے زائد اسرائیلی شہری آباد ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب عالمی عدالت انصاف سے اس معاملے پر کردار ادا کرنے کو کہا گیا ہے۔ 2004 میں بھی عالمی عدالت انصاف کہہ چکی ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی علاقوں کو تقسیم کرنے والی دیوار بین الااقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے اسرائیل سے غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کو بھی روکنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم اسرائیل نے عالمی عدالت کے اس فیصلے کو نظر انداز کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ میں یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظور ہوئی ہے جب چند روز قبل ہی سخت گیر اسرائیلی رہنما بن یامین نتن یاہو انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بعد ایک بار پھر اقتدار میں آئے ہیں جس کے بعد علاقے میں کشیدگی میں اضافے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
عدالت میں بدعنوانی کے الزامات کا مقابلہ کرنے والے 73 سالہ نتن یاہو پہلے ہی ملکی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اپنے پہلے تین سالہ دور کے بعد 2009 سے 2021 تک اس عہدے پر فائز رہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نتن یاہو نے حلف برداری کی تقریب سے قبل پارلیمنٹ (کنیسٹ) سے خطاب میں کہا کہ ’یہ چھٹی مرتبہ ہے کہ میں ایسی حکومت بنانے جا رہا ہوں جسے پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور میں پہلی بار کی طرح پرجوش ہوں۔‘
اپوزیشن کے ناراض قانون سازوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’جمہوری حکومت کا امتحان لوگوں کے فیصلے کو قبول کرنے سے ہوتا ہے۔ ایک فعال جمہوریت میں آپ کھیل کے اصولوں کا احترام کرتے ہیں۔‘
نتن یاہو کو جون 2021 میں نفتالی بینیٹ اور سابق ٹی وی نیوز اینکر یائر لیپڈ کی سربراہی میں بائیں بازو، سنٹرلسٹس اور عرب جماعتوں کے اتحاد نے اقتدار سے ہٹا دیا تھا لیکن انہیں اقتدار میں واپس آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
اپنی یکم نومبر کی انتخابی جیت کے بعد، نتن یاہو نے کٹر قدامت پسند اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے۔
دونوں جماعتیں فلسطینیوں کے بارے میں اشتعال انگیز خیالات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔