خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعے کو بندوقوں اور دستی بموں سے لیس حملہ آوروں نے پولیو ورکرز کی حفاظت پر مامور پولیس وین پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں پانچ اہلکار زخمی ہو گئے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مقامی پولیس سربراہ امان اللہ کے مطابق حملہ ایک پل کے قریب ہوا جس کے جواب میں پولیس کی جانب سے بھی فائرنگ کی گئی۔
پولیس چیف، جو قافلے کے ساتھ قریبی ویکسینیشن سائٹ پر جا رہے تھے، نے کہا کہ چھ سے آٹھ مشتبہ عسکریت پسندوں نے گھات لگا کر حملہ کیا، فائرنگ کی اور پولیس وین پر دستی بم پھینکے۔
کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن عسکریت پسند اکثر پولیو ٹیموں اور ان کی حفاظت کرنے والی پولیس اہلکاروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ سال 2023 کی پہلی انسداد پولیو مہم رواں ہفتے شروع ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے رد عمل کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان اور دیگر ممالک میں ہیلتھ ورکرز اور پولیو کے قطرے پلانے کی کوشش کرنے والے افراد پر حملہ کیا گیا ہو۔
انہوں نے کہا، ’بعض اوقات ہمیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں آپ کے پاس الفاظ ختم ہوجاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو نشانہ بنانا اور ان پر حملہ کرنا قابل نفرت ہے جو انتہائی مشکل حالات میں، نوزائیدہ بچوں کو ایسی بیماری سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو، سوائے مٹھی بھر ممالک کے تقریبا ختم ہوچکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اکثر و بیشتر یہ حملے ’سکیورٹی کی ایک ایسی صورت حال کا نتیجہ ہوتے ہیں جہاں لوگ ہیلتھ ورکرز کے خلاف متحرک انداز میں کام کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نومبر2022 کے آخر میں طالبان کے ایک خودکش بمبار نے بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پولیو ورکرز کی حفاظت کے لیے جانے والے پولیس اہلکاروں کے ایک ٹرک کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔
ٹرک میں سوار ایک پولیس افسر اور دوسری کار میں سفر کرنے والے ایک ہی خاندان کے تین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
پاکستانی طالبان نے 30 نومبر کے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اکتوبر2022 میں بھی موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے صوبہ بلوچستان میں پولیو ویکسینیشن ٹیم کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
گذشتہ برس اپریل سے اب تک پاکستان میں پولیو کے 20 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
یہ سارے کیسز دور دراز شمال مغربی علاقوں سے رپورٹ ہوئے ہیں، جہاں والدین بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے اکثر انکار کر دیتے ہیں۔