خوف اتنا ہے کہ گھر والے بار بار خیریت پوچھتے ہیں: پولیو ورکر

کوئٹہ میں پولیو مہم کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر حملے کے بعد رضاکار ایک جانب خوف کا شکار ہیں تو دوسری جانب انہوں نے ویکسین پلانے کا ایک بڑا ہدف بھی پورا کرنا ہے۔

30 نومبر، 2022 کو کوئٹہ کے نواحی علاقے میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر مسلح حملے میں چار افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے تھے (اے ایف پی)

گل بخت (فرضی نام) کوئٹہ کے علاقے سریاب میں گذشتہ تین برس سے گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا رہی ہیں، لیکن آج ان کے کام کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔

پولیو کے قطرے پلانے کی موجودہ مہم شروع ہونے سے محض دو روز قبل 30 نومبر کو کوئٹہ نواحی علاقے کچلاک میں پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کے ٹرک پر حملہ ہوا تھا۔

حملے میں ایک پولیس اہلکار سمیت چار افراد جان سے گئے جبکہ 20 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ 

واقعے کے بعد پولیو ویکسین پلانے کی موجودہ مہم سخت سکیورٹی انتظامات کے ساتھ چلائی جا رہی ہے، جبکہ رضاکار خوف کا شکار ہیں۔

گل بخت نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہمیں بہت زیادہ بھاگ دوڑ کرنا پڑ رہی ہے، تو دوسری جانب ڈر اور خوف کا عنصر ہے کہ کچھ ہو نہ جائے۔‘

کوئٹہ میں پولیو کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے حکام کے مطابق اس مرتبہ بلوچستان کے صدر مقام اور اس کے نواحی علاقوں میں پولیو مہم کو علاقوں کے حساب سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں ایک حصہ صدر اور دوسرا سریاب کے علاقوں کا ہے۔

28 نومبر کو شروع ہونے والی پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی مہم کا سریاب کے علاقے والا حصہ اس وقت جاری ہے، اور پوری سرگرمی کے دوران بلوچستان کے چھ اضلاع میں مجموعی طور پر نو لاکھ بچوں تک پہنچنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

گل بخت نے بتایا: ’ہمیں محض تین دنوں میں ایک بڑا ہدف کرنے کے لیے وقت بہت کم دیا گیا ہے۔انہوں نے موجودہ مہم کے پہلے دو روز کے دوران پولیو ٹیموں کی حفاظت پر تعینات پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر مسلح حملے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے ان کے گھر والوں کو بھی بہت زیادہ پریشان کر دیا تھا۔

’بلکہ وہ تو دعائیں مانگ رہے کہ مہم ملتوی ہو جائے۔‘

گل بخت نے بتایا کہ ان اور دوسرے ٹیم اراکین کے اہل خانہ گھڑی گھڑی فون کر کے ان کی خیریت دریافت کر رہے ہیں، جس نے ان کے لیے کام پر توجہ دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ 

’یہ والی بڑی مختلف مہم ہے، اور وہ یوں کہ اس مرتبہ ہم سب ایک انجانے خوف کا شکار ہیں۔ 

’حتیٰ کہ جن گھروں کا ہم دورہ کرتے ہیں وہاں بھی گھر والے ہمارے ساتھ پولیس دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔‘

پولیو ورکر نے عام شہریوں کی تشویش کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہا: ’ہم سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ خود نشانے پر ہیں، اور ہماری وجہ سے ان کے لیے بھی مشکل بن سکتی ہے۔‘ 

اگرچہ گل بخت اور پولیو مہم میں حصہ لینے والی دوسری خواتین پولیس وین پر حملے کے بعد سے خوف کا شکار ہیں.

تاہم ان ایک بڑے مقصد کے پیش نظر وہ بچوں کی اس موذی مرض کو ختم کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔

پاکستان میں پولیو کی صورت حال

عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے قائم فیصلہ ساز ادارہ پولیو اوور سائیٹ بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر کرس الیاس، ڈبلیو ایچ او کے ریجنٹل ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد المندھاری اور یونیسف کی ریجنل ڈائریکٹر جارج لاریہ ایڈجی نے کال حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا، جس کے اختتام پر ڈاکٹر الیاس کا کہنا تھا کہ اس بیماری کے خاتمے کے لیے آخری اقدامات مشکل ترین ہیں.

تاہم پاکستان میں ہونے والی بھرپور کوششوں کی بدولت 2023 تک ایسا ممکن ہو گا۔ 

پولیو اوور سائیٹ بورڈ اراکین اس سال مئی میں پاکستان میں 15 ماہ بعد نئے پولیو کیس کی نشاندہی کے بعد آئے تھے۔

بورڈ اراکین کا حالیہ دورہ ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجہ میں متعدد صحت سہولتوں کی تباہی اور متاثرین کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ سے اہمیت کا حامل ٹھہرایا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں سیلاب اور بارشوں کے بعد پولیو وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔  

گلوبل پولیو ایریڈیکیشن اینیشیایٹیو کی رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان میں مجموعی طور پر 20 بچے وائلڈ پولیو وائرس کا شکار ہوئے، جن میں 17 شمالی وزیرستان، دو لکی مروت اور ایک جنوبی وزیرستان سے تھے۔

پاکستان بھر سے ماہرین نے 32 ماحولیات نمونوں کے ٹیسٹ سے گیارہ اضلاع (بنوں، پشاور، سوات، نوشہرہ، ساؤتھ وزیرستان، لاہور، بھاولپور، راولپنڈی، سیالکوٹ، کراچی اور اسلام آباد) میں پولیو وائرس کی موجودگی ثابت کی۔  

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیو وائرس کا صرف ایک جنیٹنک کلسٹر گردش میں ہے، اس کے مقابلے میں 2020 میں یہ 11 اور 2021 میں چار تھے۔  

پاکستان میں انسداد پولیو کے لیے کام کرنے والے ادارے کی رپورٹ میں ملکی صورت حال کو بہتر بتاتے ہوئے کہا گیا کہ موسم بہار میں خیبر پختونخوا کے جنوب میں ایک چھوٹے سے علاقے میںن میں وائرس پھیلا، تاہم اس کی منتقلی کا عمل رک گیا ہے۔  

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سرحد پار سے بھی وائرس کی منتقلی ثابت نہیں ہوئی، جبکہ بہت سے علاقوں کے ماحولیاتی نمونے، جو ماضی میں مثبت آیا کرتے تھے، اب منفی رہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم رپورٹ کے مطابق خیر پختونخوا کے چھ جنوبی اضلاع بشمول ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، شمالی اور جنوبی وزیرستان، بنوں اور لکی مروت میں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے، جبکہ دوسری جانب ملک کے کسی حصے سے گذشہ دو سال کے دوران کوئی نیا پولیو کیس سامنے نہیں آیا۔ 

پولیو وائرس کا آخری کیس 2021 میں سامنے بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ سے تھا۔

رپورٹ نے ملک کے بعض حصوں میں پولیو رضاکاروں کی حفاظت کو چیلنج قرار دیا۔  

پولیو ایمر جنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں سات روزہ انسداد پولیو مہم کے دوران پانچ سال تک کی عمر کے نو لاکھ 78 ہزار کے قریب بچوں کو پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے کا ہدف دیا گیا ہے۔ 

پولیو مہم کے دوران چار ہزارسے زیادہ ٹیمیں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر مامور ہوں گی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان