برطانوی شہزادے ہیری کو اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’سپیئر‘ کی رونمائی پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
میڈیا، مبصرین، سابق فوجیوں اور یہاں تک کہ افغان طالبان نے بھی اس پر تنقید کی ہے، تاہم بکنگھم پیلس کتاب کے مندرجات کے بڑے پیمانے پر افشا ہونے کے معاملے پر خاموش ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کتاب کی باضابطہ طور پر اشاعت سے کچھ دن پہلے ہی منگل کو کتاب میں کیے جانے والے انکشافات شہ سرخیوں اور ٹیلی ویژن نشریات میں نمایاں رہے۔ کتاب کا ہسپانوی زبان کا ورژن غلطی سے وقت سے پہلے ہی سپین میں فروخت ہو گیا۔
اپنے انکشافات جن میں برطانوی تخت کے وارث شہزادہ ولیم کی طرف سے شہزادہ ہیری پر مبینہ جسمانی حملہ، کس طرح انہوں نے اپنا کنوارہ پن کھویا، منشیات استعمال کیں اور افغانستان میں 25 افراد کو قتل کیا، شامل ہیں۔ ان کے یہ انکشافات مذمت اور طنز دونوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
امریکی شہر پورٹ لینڈ کی سلویا پیٹرسن کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں لوگ شاہی خاندان اور ان کے تجربات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ حقیقت میں کیا ہوا کہ انہیں شاہی خاندان کو چھوڑنا پڑا۔‘
لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا کی شہری یولاندا ٹوریس کے مطابق: ’بنیادی طور پر ہیری دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ باغی ہیں۔ وہ خود کو شاہی خاندان سے دور دکھانا چاہتے ہیں۔‘
دوسری جانب مصنف اے این ولسن نے کسی دوسرے شخص کی جانب سے شہزادہ ہیری کے نام سے لکھی گئی کتاب کو ان کی والدہ شہزادی ڈیانا کے تعاون سے 1992 میں اینڈریو مورٹن کے ہاتھوں سے لکھی جانے جانے والی سوانح عمری ’کیلیکولیٹڈ اینڈ ڈیسپی کیبل‘ اور ’میلس‘ کے بعد سب سے بڑی شاہی کتاب قرار دیا ہے۔
کتاب کو عام کرنے کے فیصلے کو ’احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے ولسن کا کہنا تھا کہ ’یہ کتاب محض شاہی خاندان کے لیے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، ان (شہزادہ ہیری) کے لیے نہیں۔‘
یہ کتاب ہیری اور ان کی امریکی اہلیہ میگن کے شاہی فرائض چھوڑ کر 2020 میں کیلی فورنیا منتقل ہونے کے بعد تازہ ترین کتاب ہے۔
ڈیوک اور ڈچس آف سسیکس، جیسا کہ انہیں باضابطہ طور پر جانا جاتا ہے، اس کے بعد سے اپنے شاہی روابط کے بارے میں کھل کر بتانے والی کتابوں اور پروگراموں کے لیے کئی پرکشش معاہدوں کی شکل میں فائدہ اٹھا چکے ہیں۔
جمعرات کو ہونے والی غلطی کے بعد کتاب کا ہسپانوی زبان میں ترجمہ عجلت میں واپس اٹھا لیا گیا لیکن اس سے پہلے ذرائع ابلاغ کے ادارے کتاب خرید چکے تھے، جس سے کتاب کے مندرجات کو قبل از وقت منظر عام پر نہ لانے کی پبلشر کی سخت پابندی ہوا میں اڑ گئی۔
’دا سن‘ ٹیبلوئڈ نے لکھا کہ بچپن میں اپنی ماں کو کھونے کے بعد ہیری کے لیے عوامی ہمدردی ’اس تباہ کن انتقامی راستے کا جواز پیش نہیں کر سکتی جس کا انہوں نے انتخاب کیا۔ لاکھوں ڈالر کے لیے اپنے ہی خاندان کو بس کے نیچے دھکیل دیا۔‘
جریدے نے اپنے اداریے میں ہیری کے دعوؤں میں ’ان گنت تضادات‘ کی طرف اشارہ کیا اور انہیں ان دوستوں کی بات سننے کا مشورہ دیا جنہوں نے ان پر ’اپنی بھلائی کے لیے رکنے‘ پرزور دیا ۔
اخبار گارڈین کی گیبی ہینسلف نے کہا کہ کتاب ’نامعقول عوامی دلچسپی‘ کے مسائل سے نکل کر ’گندے کپڑوں کی دھلائی‘ کی طرف چلی گئی ہے۔
ہیری کا افغانستان میں 25 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ اور اس عمل کو شطرنج کی بساط پر ’مہروں‘ کو ہٹانے سے تشبیہ کو ’شیخی مارنا‘ اور ’نامناسب‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان کے اس دعوے پر بعض سابق فوجیوں نے غصے کا اظہار کیا۔
سال 2003 میں عراق میں برطانوی بٹالین کی کمان کرنے والے ریٹائرڈ کرنل ٹم کولنز نے ’پیسہ بنانے کے افسوس ناک عمل‘ کی مذمت کی اور مزید کہا کہ ’فوج میں آپ اس طرح کا رویہ اختیار نہیں کرتے۔ ہم اس طرح نہیں سوچتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اب ہیری اپنے دوسرے خاندان اور فوج کے خلاف ہو گئے ہیں، جس نے کبھی انہیں گلے لگایا۔ انہوں نے اس خاندان کو کوڑے دان میں ڈال دیا جس میں وہ پیدا ہوئے۔‘
افغانستان میں فرائض انجام دینے والے برطانوی فوج کے ایک اور سابق اعلیٰ افسر کرنل رچرڈ کیمپ نے کہا کہ شہزادہ ہیری کے تبصرے سے ’جہادی پروپیگنڈے کو مدد ملے گی۔‘
افغان طالبان کے اعلیٰ عہدے دار انس حقانی اپنی ٹویٹ میں کہہ چکے ہیں کہ ’مسٹر ہیری! جن لوگوں کو آپ نے مارا وہ شطرنج کے مہرے نہیں تھے۔ وہ انسان تھے۔ ان کے خاندان تھے جو ان کے منتظر ہیں۔‘
’حسد کے دعوے‘
جیسے ہی ٹوئٹر پر ’شٹ اپ ہیری‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ ہونا شروع ہوا، اخبار ’دا سن‘ نے ہیری کے والد کنگ چارلز تھری کے قریبی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کتاب سے دکھ ہوا ہے، تاہم شاہی محل کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیلی ٹیلی گراف میں جمعے کی رات رپورٹ ہونے والی یادداشتوں میں شہزادہ ہیری نے اپنے تازہ دعوؤں میں کہا کہ ان کے والد ان کی اور میگن کی مالی مدد سے گریز کرنا چاہتے تھے کیوں وہ میگن سے جلتے تھے۔
ڈیوک لکھتے ہیں کہ 2018 میں جوڑے کی شادی کے بعد موجودہ بادشاہ نے اس کی مالی مدد کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ چارلز کو ڈر ہے کہ ’نیا اور شاندار‘ شاہی جوڑا ’نمایاں‘ ہو جائے گا۔
ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق ڈیانا کا حوالہ دیتے ہوئے ہیری نے لکھا کہ ’انہیں اس کا پہلے سے تجربہ ہو چکا تھا اور وہ نہیں چاہتے کہ دوبارہ ایسا ہو۔‘
نارتھ ویلز کی بینگور یونیورسٹی میں آئین کے ماہر کریگ پریسکوٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ شاہی خاندان میں موجودہ اختلاف کے ’پیمانے‘ اور ’شدت‘ کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی لیکن ممکن ہے کہ شاہی خاندان ’اس صورت حال سے باہر نکل آئے۔‘
تاہم ہیری اور میگن کو شاہی القابات سے محروم کرنے کی کسی بھی کارروائی کے لیے سیاسی مداخلت اور نئی قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔
پریسکوٹ کا کہنا تھا کہ ’ممکن ہے کہ شاہی خاندان کے لوگ اس کارروائی کو ایسے وقت پر ’جلتی پر تیل ڈالنا‘ سمجھیں جب وہ اپنی توجہ کو چھ مئی کو ہونے والی چارلز کی تاجپوشی پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔‘