صحافت کے نابینا طالب علم جو عالمی امور کے تجزیہ کار بننا چاہتے ہیں

پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ صحافت کے طالب علم اسامہ پیدائشی نابینا نہیں تھے، ڈینگی کے باعث ان کی بینائی چلی گئی۔

اسامہ کے مطابق یونیورسٹیاں کروڑوں روپے انفراسٹرکچر پر خرچ کرتی ہیں لیکن عمارتوں کو ’مختلف صلاحیتوں‘ کے حامل افراد کے لیے قابل رسائی نہیں بناتیں (اظہار اللہ/ انڈپینڈنٹ اردو)

’ڈینگی کی وبا 2017 میں جب آئی تھی تو اس وقت مجھے ڈینگی ہوا، جس میں ناک سے خون بہتا ہے، تو وہی خون میری آنکھوں میں اتر آیا، جس کی وجہ سے میری بینائی چلی گئی، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور اب صحافت سے بے پناہ شوق کی وجہ سے میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔‘

یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد اسامہ کا جو بصارت سے محروم ہیں، لیکن صحافت کے ذریعے معاشرے کی آنکھیں اور کان بننا چاہتے ہیں۔

کالی عینک اور سیاہ رنگ کی جیکٹ پہنے اسامہ اپنے ایک دوست کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کلاس روم سے باہر آئے اور مجھ سے کہنے لگے ’انہی دوستوں کے سہارے میں ڈگری مکمل کروں گا اور امید ہے کہ صحافت میں قدم رکھوں گا۔‘

فرفر انگریزی بولنے والے اسامہ نے بتایا کہ وہ صحافت کے ساتھ ساتھ آن لائن انگریزی بھی طلبہ کو سکھاتے ہیں لیکن بنیادی طور پرشوق صحافت کا  ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اب پشاور یونیورسٹی شعبہ صحافت کے چار سالہ پروگرام میں داخلہ لیا ہے۔

انہوں نے بتایا، ’ابھی میرا پہلا سمسٹر چل رہا ہے۔ صحافت میں جمال خاشقجی پر ایک کتاب پڑھنے کے بعد متاثر ہوا اور اسی وجہ سے یہاں داخلہ لیا۔‘

اسامہ سے جب پوچھا گیا کہ کلاس روم میں پڑھنے میں کوئی مشکلات تو درپیش نہیں ہوتیں، تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں یونیورسٹیاں کروڑوں روپے انفراسٹرکچر پر خرچ کرتی ہیں لیکن عمارتوں کو ’مختلف صلاحیتوں‘ کے حامل افراد کے لیے قابل رسائی نہیں بناتیں۔

انھوں نے بتایا، ’یہاں میں آتا ہوں لیکن دوستوں کے سہارے آنا جانا ہوتا ہے کیونکہ یہاں یونیورسٹی میں زیادہ تر جگہیں ہمارے لیے ایکسس ایبل (قابل رسائی) نہیں ہیں اور نہ ہی یہاں پر پڑھنے کے حوالےسے ہمارے لیے جو مخصوص سہولیات ہوتی ہیں، وہ میسر ہیں۔‘

اسامہ کہتے ہیں کہ ’میں زیادہ تر یوٹیوب پر لیکچرز سنتا ہوں لیکن کلاس میں وائٹ بورڈ پر لیکچر کے وقت دشواری ضرور ہوتی ہے، لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ اس کو دوستوں سے بعد میں سیکھ سکوں۔‘

انہوں نے بتایا، ’ٹی وی زیادہ تر نہیں دیکھتا ہوں لیکن بی بی سی سروس کی خبریں موبائل پر ایک خصوصی ایپ استعمال کر کے سنتا ہوں اور مجھے شوق ہے کہ میں ایک بین الاقوامی تجزیہ کار بن سکوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسامہ نے بتایا کہ صحافی معاشرے کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں اور میری آنکھوں میں روشنی تو نہیں ہے تاہم صحافت میں جا کر معاشرے کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔

اسامہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا یونیورسٹی میں آنا جانا کتنا مشکل ہوتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں میں اربوں روپے لگائے جاتے ہیں لیکن مخصوص صلاحیتوں کے حامل افراد کے لیے یہ عمارتیں ایکسس ایبل نہیں ہوتیں۔‘

انہوں نے بتایا، ’یونیورسٹی آنا جانا مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن دوستوں کے تعاون سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور روز یونیورسٹی آتا جاتا ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ مخصوص صلاحیتوں کے افراد بظاہر تو معذور ہوتے ہیں لیکن یہاں معاشرہ ان افراد کو ذہنی معذور بھی بنا دیتا ہے، کیونکہ ان افراد کے لیے مختلف مقامات پر سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں، جس طرح  ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہیں۔

خبروں کے حوالے سے اسامہ نے بتایا کہ پاکستان میں خبریں ٹینشن سے بھری ہوتی ہیں، تو میں کوشش کرتا ہوں کہ بی بی سی کو سن سکوں کیونکہ ان میں پاکستان کے بارے میں خبریں کم ہوتی ہیں، اور زیادہ تر بین الاقوامی خبروں پر فوکس کرتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل