پاکستان میں عدالتوں سے سزا یافتہ اپوزیشن رہنماؤں کی میڈیا کوریج پر غیر اعلانیہ پابندی کے بعد حزب اختلاف نے عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔
خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کی اہم رہنما مریم نواز نے، جن کے جلسے، ریلیاں، پریس کانفرنس اور انٹرویو دکھانے پر بھی غیر اعلانیہ پابندی ہے، اپنی آواز عوام تک منظم انداز میں پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا پر لائیو، ریکارڈڈ اور تحریری طور پر رسائی کو ممکن بنانے کے اقدامات میں تیزی کر دی ہے۔
مسلم لیگ ن اور متبادل میڈیا:
مسلم لیگ ن کے موجودہ متحرک رہنماؤں کے مطابق وہ اپنے کارکنان کی تربیت کر چکے ہیں اور ان کے ہمدرد بھی سوشل نیٹ ورکس پر اپنی موجودگی بھرپور انداز میں منوا رہے ہیں۔
مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم نے ان کے حالیہ جلسے اور پریس کانفرنسز فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر نہ صرف لائیو دکھائے بلکہ ان کی حمایت میں کئی مثبت ٹرینڈز بھی چلائے۔
مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ عاطف رؤف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا ملک بھر میں ساڑھے تین ہزار سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ن لیگ کی بنیادی سوشل میڈیا ٹیم میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اور ان کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا ٹیم کے 35 ارکان موبائل کٹ اور ڈی ایس ایل آر کیمروں کے ہمراہ مریم نواز کے ساتھ ہوں گے اور جہاں بھی وہ خطاب یا میڈیا سے گفتگو کریں گی وہ پیجز اور ویب سائیٹ پر لائیو دکھائی جائے گی۔
ان کے مطابق ہر ڈویژن کی ٹیم الگ پیج بنائے گی اور اپنے علاقوں کے پارٹی ایونٹ کور کرے گی۔ ’لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ اور ملتان کی ٹیموں نے بھرپور کام شروع کر دیا ہے جبکہ دیگر ڈویژنز میں ٹیمیں تیار کی جا رہی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عاطف رؤف نے بتایا چند روز پہلے ملک بھر کے مختلف اضلاع سے سوشل میڈیا ورکرز کو مسلم لیگ ن ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ میں باقاعدہ تربیت دی گئی، جس میں 250 کارکنوں نے شرکت کی۔ تربیتی سیشن میں ماہرین نے کارکنوں کو موبائل سے ایونٹ کوریج، ٹرائی پاڈ، مائیک، موبائل اور ڈی ایس ایل آر کیمرے سے لائیو اور ریکارڈ مواد چلانے کے طریقے سکھائے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ساتھی کارکن ہیں اور انہیں فل الحال تنخواہ نہیں دی جا رہی۔ موبائل کٹ بھی بیشتر کارکنوں نے اپنے پیسوں سے خریدی ہیں۔ تاہم پارٹی کی سطح پر نوجوان کارکنوں کی اس ٹیم کو براہ راست مریم نواز کی سرپرستی حاصل ہے۔
’پارٹی کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عوامی سطح پر متعارف کرانے میں ضلعی عہدے دار بھی سوشل میڈیا ٹیموں سے تعاون کے پابند ہیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ان کی حریف جماعت پی ٹی آئی کے مقابلے میں ن لیگ نے تاخیر سے ڈیجیٹل میڈیا کی طرف توجہ دی۔
کیا متبادل میڈیا واقعی متبادل ہے؟
مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ عاطف رؤف کا نقطہ نظر اور ’جذبہ‘ اپنی جگہ لیکن اصل سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا پاکستان کے معروضی حالات میں واقعی ڈیجیٹل میڈیا روایتی میڈیا کا توڑ ہے؟ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ’متنازعہ‘ سائبر قوانین نافذ العمل ہیں۔
انگریزی روزنامہ ڈان کے صحافی ذوالقرنین طاہر کا کہنا تھا ’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ڈیجیٹل میڈیا روایتی میڈیا کی جگہ لے سکے۔ اس کو دو پہلوؤں سے دیکھنا پڑے گا ایک یہ کہ پاکستان میں سوشل میڈیا خصوصاً انٹرنیٹ اور سمارٹ فون تک عوام کی رسائی کس حد تک ہے جو یقناً اتنا نہیں کہ ایک مکمل متبادل کا روپ دھار سکے۔ دوسرا پہلو اب تک کے مشاہدے میں سوشل میڈیا کا بے دریغ پروپیگنڈا متوسط دماغوں کو برے طریقے سے متاثر کر رہا ہے۔ اتنی پیچیدگیوں میں صرف اسی میڈیم کے سہارے اپنا بیانیہ منوانا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔‘
ن لیگ کا ڈیجیٹل میڈیا پر انحصار کرنا کس حد تک درست سیاسی حکمت عملی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ذوالقرنین طاہر نے کہا ’اس بات کو آپ یوں سمجھیں جیسے کہا جائے جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ ابھی روایتی میڈیا کا زور ٹوٹا نہیں ہے، سکرینوں پر رہنا ابھی سیاسی جماعتوں کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔‘