سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر نیلامی کے ذریعے ڈیڑھ ارب غیر فعال یوزر نیم (اکاؤنٹس) کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق یہ فروخت اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے لیے آمدن بڑھانے والے منصوبوں کا حصہ ہے۔
ایلون مسک کا دعویٰ ہے کہ ان کے کمپنی سنبھالنے کے بعد اشتہارات کی کمی سے ٹوئٹر کو یومیہ 40 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
اکتوبر2022 میں 44 ارب ڈالر کا ٹوئٹر خریدنے والے اس ارب پتی نے نومبر میں کم آمدن کا الزام ’مشتہرین پر دباؤ ڈالنے والے کارکن گروپوں‘ پر عائد کیا تھا۔
اس کے بعد سے انہوں نے آمدن بڑھانے کے لیے نئے طریقے متعارف کروائے ہیں۔ ان میں بلیو ٹک چیک مارکس کے عوض صارفین سے ہر ماہ آٹھ ڈالر وصول کرنا بھی شامل ہے۔
غیر فعال اکاؤنٹس سے منسلک منفرد یوزرنیم کی آن لائن نیلامی سے، آمدن کے ایسے ذرائع بڑھ سکتے ہیں جنہیں پہلے استعمال نہیں کیا گیا۔ اگرچہ 1.5 ارب غیر استعمال شدہ ہینڈلز میں سے صرف ایک چھوٹے سے حصے کی ممکنہ طور پر کوئی اہم قیمت ہو سکتی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے سب سے پہلے اس نیلامی کے بارے میں خبر دی تھی۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا آگے چل کر ٹوئٹر یہ نیلامی کرے گا یا نہیں۔
ایلون مسک پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ کمپنی ان اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کر دے گی جنہوں نے طویل عرصے سے ٹوئٹ یا لاگ ان نہیں کیا۔
انہوں نے نو دسمبر 2022 کو ٹویٹ کیا، ’ٹوئٹر جلد ہی 1.5 ارب اکاؤنٹس کے نام والی جگہ خالی کرنا شروع کر دے گا۔ یہ اکاؤنٹس واضح طور پر ڈیلیٹ ہونے والے ہیں جن میں کوئی ٹویٹس نہیں ہیں [اور] کئی برسوں سے کوئی لاگ ان نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اعلان سے کچھ صارفین میں تشویش پیدا ہوئی، جنہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایسے قابل ذکر صارفین کے اکاؤنٹس بھی اس صفائی کی زد میں آئیں گے جو مر چکے ہیں۔
ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے اکاؤنٹس میں کمپیوٹر سائنسدان ہال فینی بھی شامل ہیں، جو بٹ کوائن کے بارے میں ٹویٹ کرنے یا کرپٹو کرنسی ٹرانزیکشن وصول کرنے والا پہلا شخص ہے۔
ایک صارف نے ایلون مسک کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہال فنی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ محفوظ رکھنا چاہیے، ’پلیز ڈیلیٹ نہ کرو۔‘
ٹوئٹر صارف ناموں کو نیلام کرنے والی پہلی بڑی ایپ نہیں ہو گی، ٹیلی گرام نے گذشتہ سال اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی ڈی سنٹرلائزڈ مارکیٹ پلیس کے ذریعے ان ڈیمانڈ ہینڈل فروخت کرے گا۔
ٹوئٹر اور ایلون مسک نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب دیا نہیں دیا۔
© The Independent