امریکی صدر جو بائیڈن کی اپنی ہی انتظامیہ نے جو بائیڈن کی جانب سے اپنے گھر اور ایک سابق دفتر میں خفیہ دستاویزات کے حوالے سے لاپروائی برتنے پر تحقیقات کے لیے خصوصی کونسل نامزد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ انکوائری ڈیموکریٹک صدر کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے جنہوں نے اپنے رپبلکن پیشرو اور سیاسی حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو اسی طرح کے مواد کے حوالے سے غفلت برتنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب بائیڈن کا ٹرمپ کے ساتھ 2024 میں انتخابی دوڑ میں سامنا ہو سکتا ہے۔
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا کہ ٹرمپ کے دور میں میری لینڈ میں وفاقی پراسیکیوٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے رابرٹ ہُر، صدر بائیڈن کے خلاف تحقیق میں آزاد پراسیکیوٹر کے طور پر کام کریں گے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ آیا بائیڈن نے اوباما انتظامیہ کے دوران بطور نائب صدر خفیہ ریکارڈز کو اپنی ڈیلاویئر کی رہائش گاہ پر غلط طریقے سے محفوظ کیا تھا یا نہیں۔
گارلینڈ نے کہا کہ اس معاملے میں ہر اس بات کی جانچ کی جائے گی کہ آیا کسی فرد یا ادارے نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بائیڈن کے گھر کے ایک کمرے اور ملحقہ بند گیراج سے کچھ خفیہ مواد ملا ہے اور صدر بائیڈن نے اس حوالے سے تعاون کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے وکیل رچرڈ سوبر نے ایک بیان میں کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ مکمل جائزہ لینے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ دستاویزات نادانستہ طور پر غلطی سے وہاں موجود پائی گئی ہیں۔‘
جمعرات کو ایک رپورٹر کی طرف سے اس بارے میں سوال پوچھے جانے پر خود کو ’کار گائے‘ (گاڑیوں کے شوقین) کہلانے والے صدر بائیڈن نے کہا: ’دونوں ایک بند گیراج میں تھے۔ لوگ جانتے ہیں کہ میں خفیہ دستاویزات اور خفیہ مواد کو سنجیدگی سے لیتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پیش رفت کے بعد بائیڈن اور ٹرمپ دونوں کو خصوصی استغاثہ کی جانب سے تفتیش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو عام طور پر محکمہ انصاف میں غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی طور پر حساس مقدمات میں تعینات ہوتے ہیں۔
تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے مقدمات ایک جیسے نہیں ہیں۔
بائیڈن کے وکلا نے کہا کہ انہیں ایک درجن سے بھی کم خفیہ دستاویزات ملی ہیں اور ڈھونڈنے کے بعد متعلقہ دستاویز کو واپس کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب ٹرمپ نے اس وقت تک ان الزامات کی مزاحمت کی جب تک کہ اگست میں ایف بی آئی کی جانب سے تلاشی میں تقریباً 100 خفیہ دستاویزات برآمد نہ کرلی گئیں، جس سے یہ سوالات اٹھتے رہے کہ ٹرمپ یا ان کے عملے نے تفتیش میں رکاوٹ ڈالی تھی۔
ایک قانونی فرم ’نیشنل سکیورٹی کونسلرز‘ کے سربراہ کیل میک کلیناہن نے کہا: ’دونوں معمالات میں حقائق زیادہ مختلف نہیں ہو سکتے۔ صرف مماثلت یہ ہے کہ خفیہ دستاویزات موجود تھیں جو وائٹ ہاؤس سے باہر کہیں اور لے جائی گئی تھیں۔‘
ٹرمپ کی جانب سے خفیہ دستاویزات کے حوالے سے لاپروائی برتنے کی تحقیقات کرنے والے خصوصی کونسل رپبلکن پارٹی کی جانب سے نومبر 2020 کے انتخابات میں بائیڈن سے ملنے والی شکست کو الٹانے کی کوششوں کے بارے میں بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔
صدر بائیڈن کو تحفظ
ماہرین کے مطابق موجودہ صدر کی حیثیت سے جو بائیڈن کو ٹرمپ کے مقابلے میں کم قانونی خطرے کا سامنا ہے۔ ان کے پاس دستاویزات کو ظاہر کرنے کے لیے وسیع اختیارات حاصل ہیں اور ممکنہ طور پر انہیں استغاثہ کی تفتیش سے بچایا جائے گا کیونکہ محکمہ انصاف کے پاس کسی بھی موجودہ صدر کے خلاف مجرمانہ الزامات سے بچانے کے لیے دیرینہ پالیسی موجود ہے۔
اس کے برعکس ٹرمپ کو جنوری 2021 میں صدارتی مدت ختم ہونے کے بعد یہ رعایت حاصل نہیں ہو گی۔
اٹارنی جنرل گارلینڈ نے کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ بائیڈن کیس میں ایک خصوصی کونسل کی ضرورت ہے۔
گارلینڈ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا: ’یہ تقرری عوام کے لیے خاص طور پر حساس معاملات میں آزادی اور جوابدہی دونوں کے لیے محکمے کی وابستگی کی نشاندہی کرتی ہے اور صرف حقائق اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔‘
دوسری جانب نامزد کونسل رابرٹ ہُر نے ایک بیان میں کہا کہ وہ غیر جانبداری سے تحقیقات کریں گے۔