نامور امریکی اخبار دی واشنگٹن پوسٹ نے منگل کو خبر دی کہ ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی رہائش گاہ پر چھاپے کے دوران ایک ملک کی جوہری صلاحیتوں کی تفصیلات والی فائلیں ضبط کی ہیں۔
اخبار نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دستاویزات اتنی خفیہ ہیں کہ صرف صدر، ان کی کابینہ کے کچھ ارکان یا کابینہ کی سطح کے قریبی عہدے دار ہی ان کو دیکھنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
اس اخبار نے کہا کہ کاغذات میں کسی ملک کی جوہری دفاعی تیاری کے بارے میں معلومات شامل ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ملک کون سا ہے۔
ایسی حیرت انگیز اثرات والی دستاویزات، جن کی درجہ بندی وفاقی قانون میں موجود کچھ اعلیٰ ترین سطحوں پر کی گئی ہو، ان کو ایک نجی رہائش گاہ پر رکھا گیا جہاں ان کی حفاظت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
یہ الزام ایک وجہ فراہم کرتا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ایف بی آئی کے چھاپے کے بعد قومی سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات کا کیوں جائزہ لینا چاہیے۔
اگر یہ رپورٹ درست ہے تو اس سے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے کوئی بھی دفاع ختم ہوگیا ہے جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایف بی آئی نے جو دستاویزات ضبط کی ہیں وہ بے ضرر ہیں اور ان کا مقصد صرف ایک یادداشت، صدارتی لائبریری یا کسی اور منصوبے میں ان کے استعمال کرنا ہے۔
اس قسم کی معلومات کی سابق صدر کے پاس موجودگی کا تصور بھی مشکل ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا دفاع کرنے والے قریبی ساتھیوں نے کئی ہفتوں سے اس قسم کے دلائل دیئے ہیں۔
سینیٹر مارکو روبیو، جو اس ریاست کے نمائندہ ہیں جس میں چھاپہ مارا گیا تھا، نے اس ہفتے ہی کہا تھا کہ تحقیقات محض ریکارڈ کا مسئلہ تھا۔
اخبار کی منگل والی رپورٹ سے محکمہ انصاف بھی کلاسیفائیڈ مواد کے ممکنہ غلط استعمال کی تحقیقات کے دائرے میں آ سکتا ہے، ریکارڈ ایکٹ کی خلاف ورزیوں کا ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی الزام لگایا جاسکتا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ نے تبصرے کے لیے سابق صدر کے دفتر سے رابطہ کیا ہے۔
آٹھ اگست کو مار-اے-لاگو پر ایف بی آئی کے چھاپے کے فوراً بعد رد عمل دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی تردید کی کہ ان کے گھر سے ملنے والے کاغذات میں مبینہ طور پرکوئی جوہری راز موجود ہے اور انہوں نے ان دعوؤں کو ’دھوکہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف بی آئی نے وہاں دستاویزات خود رکھی ہیں، حالانکہ اس کے بعد انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ وہ وہاں موجود تھیں، بعد میں انہوں نے دعوی کیا کہ انہوں نے ذاتی طور پر ان کو ’ڈی کلاسیفائی‘ کیا تھا۔
ایف بی آئی کے چھاپے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار بائیڈن انتظامیہ اور بالخصوص وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی حالیہ قانونی پریشانی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پنسلوانیا میں اہم ریاستی الیکشن میں اپنے منتخب امیدواروں کے ساتھ ایک حالیہ ریلی میں سابق صدر نے اس بات کی مذمت کی جس کو انہوں کہا کہ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ’خطرناک‘ اقدامات تھے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کے حالیہ انکشاف نے ایجنسیوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کے غصے میں مزید اضافہ کیا جس میں مارک نے کہا کہ ان کی کمپنی اور ٹوئٹر نے رضاکارانہ طور پر 2020 کے انتخابات کے دوران ہنٹر بائیڈن کی ملکیت والے لیپ ٹاپ کے متعلق خبروں کو اپنے پلیٹ فارمز پر سنسر کیا تھا۔
کنزرویٹوزکا طویل عرصے سے دعویٰ تھا کہ اس کمپیوٹر میں مجرمانہ معلومات موجود ہیں (اگرچہ بائیڈن پر قانون پر نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے کسی بھی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا) اور ڈونلڈ ٹرمپ نے خود حال ہی میں دعوے کی حمایت کی ہے کہ زیادہ ووٹروں تک خبر نہ پہنچنے کی وجہ سے 2020 کے انتخابات میں انہیں ووٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق صدر اپنی 2016 کی صدارتی مہم اور روسی ایجنٹوں کی جانب سے ان کی مخالف ہلیری کلنٹن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کی تحقیقات کی وجہ سے بھی جسٹس ڈیپارٹمنٹ اور ایف بی آئی کو ناپسند کرتے ہیں۔
تاہم انہوں نے اپنے پیشرو بارک اوباما پر اسی انداز میں بے بنیاد الزامات لگانے کو ترجیح دیتے ہوئے اس بات کی کوئی مربوط وضاحت فراہم نہیں کی ہے کہ فلوریڈا میں ان کی نجی رہائش گاہ اور ریزورٹ میں کلاسیفائیڈ مواد کیوں موجود تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مارجوری ٹیلر گرین سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایف بی آئی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس کے بارے میں اس ایجنسی اور محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے گذشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ وفاقی ایجنٹوں اور املاک کے خلاف تشدد کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہاں تک کہ اوہائیو میں ایف بی آئی کے ایک دفتر پر بھی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آور ہلاک ہو گیا۔
اب واشنگٹن کے ذرائع ابلاغ کے سیاسی تجزیہ کاروں اور محکمہ انصاف کے استغاثہ دونوں کے ذہنوں میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کرنے کے سیاسی مضمرات سرفہرست ہیں۔ بالخصوص اس وقت فرد جرم عائد کرنا جب انہیں آئندہ الیکشن میں اپنی پارٹی کا ایک سرکردہ امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔
ریپبلک پارٹی کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے محکمہ انصاف کی جانب سے اس طرح کے عمل پر ممکنہ رد عمل کے متعلق بات کی تھی۔ انہوں نے حال ہی سڑکوں پر ’فسادات‘ کی پیش گوئی کی تھی کہ کیا ڈونالڈ ٹرمپ پر مجرمانہ الزام عائد کیا جانا چاہئے۔
بائیں جانب ان کے مخالفوں نے ان کے الفاظ کو در پردہ دھمکی قرار دیا تھا، جبکہ لنزے گراہم نے حقیقی صورت حال کی ایماندارانہ تصویر کشی کے طور پر ان کا دفاع کیا۔
ایف بی آئی ایجنٹوں کی جانب سے ضبط کی گئی دستاویزات اب عدالت کی جانب سے مقرر کردہ خصوصی ماہر کو دی جائیں گی جب تک کہ محکمہ انصاف جج الین کینن سے اس فیصلے کی اپیل نہیں کرتا کہ ابھی تک نامعلوم اہلکار کو دی گئی معلومات یا فائلوں کا جائزہ لینے کی اجازت دی جائے۔
ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
© The Independent