امریکی حکام نے سابق صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بارے میں بدھ کو ہزاروں صفحات پر مشتمل خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں۔
انہیں لی ہاروے اوسوالڈ نے گولی مار کے قتل کر دیا تھا۔ جان ایف کینڈی کا قتل ایک ایسا معاملہ ہے جو سرکاری نتائج سامنے آنے کے باوجود اب بھی سازشی نظریات کو ہوا دیتا ہے۔
سی آئی اے اور ایف بی آئی کی فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی تفتیش کاروں نے یہ جاننے کے لیے اپنا گہرا اور وسیع جال بچھایا تھا کہ اوسوالڈ کے ہاتھوں ہونے والے 22 نومبر، 1963 کے اس قتل کی سازش میں کوئی دوسرا شامل تھا یا نہیں۔ اس قتل نے دنیا کو چونکا دیا تھا۔
دستاویزات سے مزید پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے سوویت انٹیلی جنس سے لے کر افریقی کمیونسٹ گروپوں اور اطالوی مافیا تک بے شمار معلومات کا پیچھا کیا۔
ان کاغذات میں امریکہ کی ان وسیع کوششوں کو دکھایا گیا جو اس نے کیوبا میں فیدل کاسترو کی کمیونسٹ حکومت کی جاسوسی کرنے اور اور اوسوالڈ پر اس کا اثر و رسوخ جاننے کے لیے کی تھی۔
اوسوالڈ کیوبا میں رابطے رکھتے تھے اور کینیڈی کیوبا کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔
ان 1491 فائلوں کو، جن میں سے بہت سی طویل رپورٹیں ہیں، نیشنل آرکائیوز کے جے ایف کینیڈی قتل ریکارڈز کے صفحے پر پوسٹ کی گئیں جن میں پہلے ہی کینیڈی کی موت اور اس کے بعد ہونے والی تحقیقات کے متعلق ہزاروں فہرستیں موجود ہیں۔
کینیڈی کے قتل نے طویل عرصے سے متعدد سازشی نظریات کو جنم دیا جو اس سرکاری فیصلے کو قبول نہیں کرتے کہ اوسوالڈ نے اکیلے یہ کام کیا تھا۔
انہوں نے جان ایف کینیڈی کو اس وقت گولی ماری تھی جب نوجوان صدر ڈیلاس، ٹیکساس کی سڑکوں پر ایک لیموزین میں جا رہے تھے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کمیونسٹ ہمدرد اوسوالڈ کو کیوبا یا سوویت یونین نے اس کام پر لگایا تھا۔
دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ کیوبا مخالف کارکنوں نے ممکنہ طور پر امریکی انٹیلی جنس یا ایف بی آئی کی مدد سے کینیڈی کو قتل کیا تھا۔
جب کہ کئی دوسروں کا خیال ہے کہ ان کے سیاسی حریف اس قتل کی وجہ ہو سکتے تھے۔
چار سال قبل اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ قانونی طور پر 1992 کے اس قانون کے پابند تھے جس کے تحت امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے روکی گئی معلومات جاری کرنا ضروری تھا۔
اس قانون کے تحت اس قتل کے متعلق تمام سرکاری ریکارڈ ظاہر کرنا ضروری ہے تاکہ ’عوام کو مکمل طور پر آگاہ کیا جا سکے۔‘
امریکہ کے نیشنل آرکائیو کے مطابق ٹرمپ نے سات حصوں میں 53 ہزار سے زائد دستاویزات کو پبلک کیا جس سے عوام کو اس قتل کے متعلق88 فیصد معلومات تک رسائی حاصل ہوگئی۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کی بنیاد پر دیگر ہزاروں دستاویزات کو خفیہ ہی رہنے دیا تھا۔
رواں سال امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اس قانون کا احترام کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ بھی اکتوبر میں اس وقت شدید تنقید کی زد میں آئے جب وائٹ ہاؤس نے مزید دستاویزات پبلک کرنے کو ملتوی کر دیا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ اس وقت یہ تاخیر ’فوجی دفاع، انٹیلی جنس کارروائیوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خارجہ تعلقات کو نقصان سے بچانے کے لیے‘ ضروری تھی۔
وائٹ ہاؤس پر اب 2022 کے اختتام سے پہلے دستاویزات کا جائزہ مکمل کرنے کا دباؤ ہے۔
کینیڈی قتل ڈوزیئر کے ماہر فلپ شینون نے بدھ کے روز جریدے پولیٹیکو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ شاید ایسی دستاویزات موجود ہیں جو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کبھی جاری نہیں کی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ’جب تک حکومت کچھ دستاویزات کو چھپاتی رہے گی، اس سے اس خیال کو مزید تقویت ملے گی کہ درحقیقت کینیڈی کی موت کے حوالے سے سازشی نظریات ایک بنیاد رکھتے ہیں۔‘
شینون نے حالیہ برسوں میں مرکزی دھارے میں شامل ہونے والی امریکی سازشی نظریات پر یقین رکھنے والی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’آج کیو اے نون جسے ایف بی آئی نے اندرونی دہشت گردی کا خطرہ سمجھا ہے، نے جان ایف کینڈی کے قتل سے متعلق سازشی نظریات کو قبول کر لیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شینون کے تخمینے کے مطابق اس قتل کے متعلق 15 ہزار دستاویزات ابھی بھی خفیہ ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سی آئی اے اور ایف بی آئی سے ہے۔
جیفرسن مورلے، جو اس قتل کے بارے میں ایک ویب سائٹ JFKFacts.org چلاتے ہیں، انہوں نے ان دستاویزات کو منظر عام پر لانے کے لیے کئی سال عدالتی جدوجہد کی ہے، کا کہنا ہے کہ ’حالیہ دستاویزات کے باوجود اہم ریکارڈ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اہم بات یہ ہے کہ مورخ ولیم مانچسٹر نے کینیڈی کی اہلیہ جیکی کینیڈی اور بھائی رابرٹ کینیڈی (آر ایف کے) کے ساتھ جو انٹرویوز کیے ان پر ابھی بھی پابندی ہے۔‘
مورلے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’نہ تو جیکی اور نہ ہی آر ایف کے کو اس سرکاری نظریے پر یقین تھا کہ کینیڈی کو اکیلے ایک شخص نے بغیر کسی وجہ کے قتل کیا ہے۔‘
’انہوں نے نجی طور پر کہا تھا کہ جے ایف کے کو اس کے اندرونی دشمنوں نے قتل کیا۔ ان ٹیپس میں یہی کچھ ہے اس لیے وہ اتنی حساس ہیں۔‘