پاکستانی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں گذشتہ تین سالوں 2019 سے 2021 کے دوران وزیراعظم آفس کے اخراجات کی تفصیل پیش کر دی گئی، جس کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کے تین سالہ دور حکومت میں ہیلی کاپٹر کی پروازوں پر ایک ارب روپے خرچ کیے گئے۔
سینیٹر ڈاکٹر زرقا سہروردی نے سوال اٹھایا تھا کہ ’کیا وزیراعظم کا دفتر بتائے گا کہ سنہ 2008 سے اب تک بننے والی حکومتوں اور وزرائے اعظم نے پورے ملک میں کتنے کیمپ آفس بنائے؟‘
جس پر وزیراعظم آفس کی جانب سے جواب جمع کروایا گیا، جس میں بتایا گیا کہ ’یہ اخراجات داخلی نوعیت کے ہیں جبکہ اس دوران ہیلی کاپٹر پروازوں پر خرچ ہونے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔‘
جواب میں ایوی ایشن ڈویژن کے حوالے سے بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں 21-2019 کے دوران ایوی ایشن سکواڈرن نے 94 کروڑ 60 لاکھ (تقریباً ایک ارب روپے) وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر پروازوں پر خرچ کیے۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم کیمپ آفس کا خرچہ
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں وزیراعظم آفس کی عمارت کے علاوہ تین کیمپ آفس تھے، جن میں سے دو لاہور اور ایک ملتان میں تھا، جن پر کل ملا کر ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، جو مختصر وقت کے لیے وزیراعظم تعینات ہوئے تھے، ان کا ایک ہی کیمپ آفس تھا جس پر قومی خزانے سے پانچ ارب 50 کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔
مسلم لیگ ن کے دور میں وزیراعظم کیمپ آفس کے خرچے
2013 سے 2018 کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن برسراقتدار تھی۔ اس دوران دو وزیراعظم تعینات ہوئے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کا ایک کیمپ آفس چار سال تک جاتی امرا میں رہا، جس پر سرکاری خزانے سے چار ارب 54 کروڑ 40 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
جبکہ آخری سال شاہد خاقان عباسی وزیراعظم رہے جنہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں رہائش اختیار نہیں کی تھی بلکہ اسلام آباد کے ایف سیون میں واقع گھر کو ہی وزیراعظم ہاؤس کا درجہ دے دیا تھا، جس پر پانچ ارب 16 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
پاکستان تحریک انصاف کا وزیراعظم ہاؤس میں خرچ
2018 سے 2022 کے اوئل تک پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی وزیراعظم ہاؤس میں رہائش اختیار نہیں کی تھی بلکہ بنی گالہ میں واقع ذاتی گھر ہی میں رہائش رکھی جس کے باعث وزیراعظم کی سکیورٹی اور پروٹوکول انہیں وہاں ذاتی گھر میں مہیا کیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب دستاویزات کے مطابق 2017 سے وزیراعظم ہاؤس کے خرچوں میں بتدریج کمی آئی۔
مالی سال 18-2017 میں 50 کروڑ روپے جبکہ 21-2020 میں خرچہ کم ہو کر 30 کروڑ روپے تک آ گیا۔
تفصیلات میں مزید بتایا گیا کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران وزیراعظم آفس کے لیے ایک ارب سترہ کروڑ روپے بجٹ مختص کیا گیا جبکہ ان سالوں میں اخراجات 90 کروڑ روپے سے زائد رہے۔
سنہ 20-2019 میں 38 کروڑ روپے بجٹ مختص کیا گیا جبکہ 31 کروڑ استعمال ہوا۔ 21-2020 میں 38 کروڑ 90 لاکھ روپے مختص تھے جبکہ 30 کروڑ روپے استعمال ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنہ 22-2021 میں 40 کروڑ روپے مختص تھے جبکہ 38 کروڑ روپے استعمال ہوئے۔
دستاویزات میں بتایا گیا کہ چونکہ گذشتہ تین سالوں میں سادگی اختیار کی گئی اور غیر ضروری خرچے نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے خرچوں میں کمی ممکن ہوئی۔
دستاویزات میں مزید بتایا گیا کہ وفاقی حکومت اور وزرات خزانہ کی جانب سے سنہ 23-2022 کے بجٹ میں سادگی اور بچت کے قوائد کو برقرار رکھا گیا ہے۔
سفری اخراجات کو کم کرنے کے لیے ڈیجٹل میٹنگز کو ترجیح دی جا رہی ہے اور غیر ضروری ملازمتوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔
منگل کے روز چیئرمین صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس ہوا تو وقفہ سوالات کے دوران پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ ’سابق وزیراعظم عمران خان نے سائیکل پر آفس آنے کی بات کی اور سادگی کا درس دیا لیکن ہیلی کاپٹر پر سفر کیا۔‘
سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ ’اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ تین سال میں عمران خان نے بطور وزیراعظم ایک ارب خرچ کیے۔‘
وزیر مملکت برائے قانون شہادت اعوان نے وزیر اعظم ہاؤس کے تین سال کے اخراجات کی تفصیل پیش کی اور بتایا کہ ایوان میں 2019 سے 2021 کے اخراجات کی تفصیلات جمع کردی گئی ہیں۔
اجلاس کے دوران وزیر مملکت شہادت اعوان اور پی ٹی آئی کے سینیٹر شہزاد وسیم میں تکرار بھی ہوئی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ ’سیلاب کے فنڈز کی تفصیلات کہاں ہیں، ہم نے سوال پوچھا تھا کہ وہ فنڈز کتنے اور کہاں لگے؟‘
سینیٹر شہزاد وسیم کے سوال پر شہادت اعوان نے کہا کہ ’غیر متعلقہ سوال پوچھا جارہا ہے، قواعد کے مطابق تحریری سوال جمع کروایا جائے تو ساری تفصیلات پیش کردوں گا۔‘