ایک نئی تحقیق کے مطابق متوقع ماحولیاتی نقصان برداشت کرنے کے لیے درکار کم سے کم سرمایہ کاری کرنے میں ناکامی سے ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کو اس دہائی میں سینکڑوں ارب ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے اور مجموعی ملکی پیداوار (GDP) تباہ ہو سکتی ہے۔
سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی اس ’دی ایڈاپشن اکنامی‘ رپورٹ میں چین، انڈیا، بنگلہ دیش اور پاکستان سمیت دس ملکوں میں ماحول سے موافق سرمایہ کاری کی ضرورت پر تحقیق کی گئی ہے۔
یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ 2030 تک اس موافقت کے لیے کم از کم 30 ارب امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، جو نہ ہوئی تو ان مارکیٹوں کو متوقع نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور وہ 377 ارب امریکی ڈالرز مالیت کی ملکی پیداوار سے محروم ہو سکتے ہیں۔ یہ رقم سرمایہ کاری کے لیے درکار رقم سے 12 گنا زیادہ ہے۔
اس پیش گوئی میں فرض کیا گیا ہے کہ پیرس کے ماحولیاتی معاہدے کے مطابق دنیا درجۂ حرارت 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر درجۂ حرارت 3.5 ڈگری تک بڑھ گیا تو کم از کم 62 ارب ڈالرز سے دگنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی جبکہ سرمایہ کاری نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ نقصانات میں ڈرامائی حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
ماحولیات سے موافقت کے منصوبوں کی مثالوں میں سیلاب کے خطرے سے دوچار علاقوں میں ساحلی بندوں کی تعمیر، خشک سالی سے بچنے کے لیے فصلوں کی ترقی اور زیر التوا قدرتی آفات کے خلاف قبل انتباہی نظام شامل ہیں۔
تحقیق کے مطابق 10 مارکیٹوں میں سے انڈیا کو موافقت کی سرمایہ کاری سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ مارکیٹ کے اندازے کے مطابق موسمی نقصانات روکنے کے لیے اندازاً 11 بلین امریکی ڈالرز کی ضرورت ہوگی اور 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے منظرنامے میں 135.5 ارب امریکی ڈالرز کی نمو ختم ہو جائے گی۔
چین صرف آٹھ ارب امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کر کے 112 ملین ڈالرز کی تخمینی لاگت سے بچ سکتا ہے اور کینیا موافقت میں 200 ملین امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری کر کے اندازاً دو ارب امریکی ڈالرز کے اخراجات سے بچ سکتا ہے۔
موافقت کا معاملہ
اگر دنیا بھر کے ممالک پیرس معاہدے میں طے کردہ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو موسمی تبدیلی سے مطابقت اختیار کرنے والے اقدامات کو کاربن میں کمی (decarbonization) کے ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیے جس میں بینکاری کے شعبے کو مالیات تک رسائی میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔
موسمی موافقت کے لیے درکار 30 ارب امریکی ڈالرز کی سرمایہ کاری 10 مارکیٹوں کے مشترکہ سالانہ جی ڈی پی کے صرف 0.1 فیصد سے کچھ زیادہ کی نمائندگی کرتی ہے اور اندازے کے مطابق 95 کھرب امریکی ڈالرز ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کو کمی کے اقدامات کا استعمال کرتے ہوئے خالص صرف پر منتقلی کی ضرورت ہے جیسا کہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ کی’جسٹ ان ٹائم (https://www.sc.com/en/insights/just-in-time) رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دی ایڈاپشن اکنامی نے 150 بینکاروں، سرمایہ کاروں اور اثاثہ جات کے منتظمین کا بھی سروے کیا اور معلوم کیا کہ فی الحال جواب دہندگان کے پاس موجود سرمائے کا محض 0.4 فیصد ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں موافقت کے لیے مختص کیا گیا ہے، جہاں سرمایہ کاری کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
تاہم، 59 فیصد جواب دہندگان آئندہ 12 مہینوں میں اپنی موافقت کی سرمایہ کاری میں اضافے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اوسطاً، موافقت کی مالی اعانت 2022 میں عالمی اثاثوں کے 0.8 فیصد سے بڑھ کر 2030 میں 1.4 فیصد ہونے کی توقع ہے۔
اس بارے میں سٹینڈرڈ چارٹرڈ کی چیف سسٹین ایبلٹی آفیسر، میریسا ڈریو نے کہا کہ ’یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ عالمی درجہ حرار ت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب رکھنے کی کوششوں سے قطع نظر ہمیں اپنے نظام میں آب و ہوا کے اثرات کو شامل کرنا ہوگا، اس کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور ایک حقیقت بنانا ہوگا۔‘
میریسا ڈریو نے مزید کہا: ’تمام قوموں کو زیادہ لچکدار زراعت، صنعت اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے ذریعے موسمی تبدیلیوں کے مطابق بنانے کی ضرورت ہو گی لیکن اس بات کی ضرورت ابھرتی ہوئی اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے جس میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور انتہائی سخت موسم کے منفی اثرات کا غیر متناسب خطرہ ہیں۔‘
انہوں نے اپنے تبصرے میں مزید کہا: ’ہمیں فوری طور پر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ موافقت ایک مشترکہ ضرورت ہے اور جیسا کہ ہماری ’دی ایڈاپشن اکنامی‘ کی تحقیق اتنے موثر انداز میں روشنی ڈالتی ہے، بے عملی تیزی سے بڑھتی ہوئی لاگت کا مشترکہ سماجی بوجھ پیدا کرتی ہے۔
’سرمائے کو موافقت کی جانب لے جانے اور اس بات کا ثبوت دینے کے لیے کہ موافقت میں سرمایہ کاری نجی شعبے کے لیے تجارتی طور پر قابل عمل اور پرکشش تجویز ہو سکتی ہے، اسے بنانے میں مالی شعبے کا ایک اہم کرادار ہے۔‘