آسٹریلیا کے انتہائی شمال میں واقع جزیرہ کیپ یارک کی چوٹی سے دوڑ شروع کرنے والی ارکانا مری بارٹلیٹ ملک کے جنوبی کنارے تک پہنچ چکی ہیں اور ایک نیا عالمی ریکارڈ بنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی 32 سالہ مرے بارٹلیٹ نے 150 دنوں میں 150 میراتھن یا تقریباً پانچ ماہ میں 6300 کلومیٹر (3900 میل) دوڑ کر یہ کارنامہ انجام دیا۔
انہوں نے پیر کو اختتامی لائن عبور کرتے ہوئے برطانوی خاتون کیٹ جیڈن کا 106 میراتھن کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا، جو انہوں نے گذشتہ برس بنایا تھا۔
مرے بارٹلیٹ اپنی دوڑنے کی مہم کے ذریعے تحفظ کے لیے کام کرنے والے فلاحی ادارے وائلڈرنس سوسائٹی کے لیے رقم جمع کر رہی ہیں اور یہ پیغام پھیلا رہی ہیں کہ ’معدومیت ایک انتخاب ہے۔‘
انہوں نے ایک لاکھ آسٹریلوی ڈالر جمع کیے ہیں، جو ان کے ہدف 62 ہزار آسٹریلوی ڈالر سے کہیں زیادہ ہیں۔ انہیں پارکوں اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ پر خرچ کیا جائے گا۔
یہ پروفیشنل میراتھن رنرٹوکیو اولمپک کھیلوں میں شامل ہونے سے رہ گئی تھی اور اب ان کی نظریں اس ریکارڈ پر ہیں۔
انہوں نے اگست میں آسٹریلیا کے جانوروں اور پودوں کو درپیش معدومیت کے بحران کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کیپ یارک سے آسٹریلیا کے ٹین ٹریک تک اپنی دوڑ کا آغاز کیا تھا۔
مرے بارٹلیٹ نے نائن نیوز کو بتایا کہ ’آسٹریلیا شاندار ہے، یہ بہت خوبصورت ہے، اس دوڑ سے میں یہی حاصل کرنا چاہتی تھی۔
’یہ دنیا کو آسٹریلیا کی خوبصورتی کو دکھانے کے لیے تھی۔ ہمارے پاس عالمی سطح پر اہم نیشنل پارک، گریٹ بیریئر ریف ہے، اور انہیں پیدل چل کر تلاش کرنا ایک انوکھا اور مختلف طریقہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ ہر روز تقریباً 43 کلومیٹر کا سفر طے کرتی تھیں، جس کے دوران وہ ملک کے برساتی جنگلات، ساحلی پٹیوں، کچی سڑکوں اور شاہراہوں سے گزریں اور شدید گرمی، طوفان، دھوپ، چھالے اور درد برداشت کیا۔
انہوں نے tip_to_toe_2022 اپنے انسٹاگرام پروفائل پر ویڈیو کے کیپشن میں لکھا، ’یک بعد دیگرے 50 میراتھن۔ ایک گنیز ورلڈ ریکارڈ۔ مین لینڈ آسٹریلیا بلند مقام سے نیچے تک۔ خطرے سے دوچار جنگلی حیات کے لیے رقم جمع کرنا۔ . اس ایڈونچر کو ہر اس چیز کے لیے فالو کریں جو غلط ہو سکتی ہے، اور شاید ہو گی۔‘
وہ ایک دن میں پانچ ہزار سے چھ ہزار کیلوریز استعمال کرتی تھیں، جو اوسط عورت کی ضرورت سے تین گنا زیادہ تھیں، جس سے ان کا وزن کم ہوتا رہا۔
انہوں نے نائن نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ بہت تھکا دینے والا ہے، میں آپ کو یہ دوں گی لیکن میں خود کو بہت خوش قسمت محسوس کرتی ہوں کہ میں فائنل لائن تک پہنچنے کے لیے نکلی ہوں۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے تین ہفتوں کے دوران انہیں تین چوٹیں آئیں اور دوڑ کے اختتام تک ان کے پاؤں جوتے کے سائز جتنے سوج گئے تھے۔
(ایڈیٹنگ: بلال مظہر | ترجمہ: العاص)
© The Independent