سرکردہ انڈین خواتین پہلوانوں میں سے ایک ونیش پھوگاٹ نے اپنی فیڈریشن کے سربراہ اور متعدد کوچز پر خواتین ایتھلیٹس کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بطور احتجاج جمعرات کو بین الاقوامی مقابلوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
درجنوں خواتین اور مرد پہلوانوں نے کوچز اور ٹرینرز کے ساتھ نئی دہلی میں جمعرات کو دوسرے دن بھی احتجاج جاری رکھا جو اولمپک میڈلسٹ اور کامن ویلتھ گیمز کے چیمپیئن بھی ہیں۔
انڈیا کی سب سے زیادہ نامور خواتین پہلوانوں میں سے ایک اور دولت مشترکہ کھیلوں میں تین مرتبہ طلائی تمغہ جیتنے والی ونیش پھوگاٹ کا کہنا ہے کہ ’تمام خواتین یہاں احتجاج میں ہیں، ان میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی واقعے سے گزرنا پڑا ہے، ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقعہ ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس احتجاج میں شامل کوئی بھی کھلاڑی اس وقت تک کسی بھی قومی یا بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ نہیں لے گا جب تک کہ اس معاملے کو حل نہیں کیا جاتا۔‘
بدھ کو اسی طرح کے ایک اور احتجاج میں انہوں نے ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا (ڈبلیو ایف آئی) کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ پر، جو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بھی ہیں، اور دیگر ٹرینرز پر بدسلوکی کا الزام لگایا تھا۔
پھوگاٹ کا کہنا تھا ’خواتین پہلوانوں کو کوچز اور ڈبلیو ایف آئی کے صدر کے ذریعے قومی کیمپوں میں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میں قومی کیمپ میں کم از کم 10 سے 20 لڑکیوں کو جانتی ہوں جو آئیں اور مجھے اپنی کہانیاں سنائی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان الزامات سے چند ماہ قبل ملک کی قومی سائیکلنگ ٹیم کے کوچ کو جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد برطرف کر دیا گیا تھا۔
پھوگاٹ نے کہا کہ بہت سے پہلوانوں کو ان کے معمولی خاندانی پس منظر کی وجہ سے آگے نہ آنے پر ڈرایا جاتا تھا۔
’وہ اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے ڈرے ہوئے ہیں۔ وہ ان سے نہیں لڑ سکتے کیونکہ وہ طاقت ور ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ریسلنگ ہی ہمارا واحد ذریعہ معاش ہے اور وہ ہمیں یہ کرنے نہیں دے رہے۔ ہمارا واحد راستہ موت ہے۔ تو ہوسکتا ہے مرنے سے پہلے اچھا کام کر جائیں۔‘
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ خود اس کا شکار ہوئی تھیں یا نہیں۔
’پھانسی کے لیے تیار ہوں‘
پھوگاٹ کے احتجاج میں اولمپک کانسی کا تمغہ جیتنے والی ساکشی ملک اور مرد کھلاڑی بجرنگ پونیا بھی شامل تھے۔
پونیا نے جمعرات کو کہا: ’ہمیں جن چیزوں کا سامنا کرنا پڑا، ہم نہیں چاہتے کہ اس ملک کے مستقبل کے پہلوانوں کو اس سامنا کرنا پڑے، اسی لیے ہم یہاں احتجاج کر رہے ہیں۔‘
ساکشی ملک نے اس سے قبل ٹویٹ کیا تھا کہ کھلاڑی ملک کے لیے تمغے جیتنے کی خاطر سخت محنت کرتے ہیں لیکن فیڈریشن نے ہمیں نیچا دکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔‘
انڈیا میں MeToo# تحریک نے 2018 میں اس وقت زور پکڑا جب بالی ووڈ کی ایک اداکارہ نے ایک سینیئر اداکار پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا۔
اس کے فورا بعد، دیگر پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین نے متعدد الزامات لگائے، جن میں ایک سابق حکومتی وزیر کے خلاف الزامات بھی شامل ہیں، لیکن کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس میں تھوڑی سی بنیادی تبدیلی آئی ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق سنگھ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک بھی خاتون پہلوان جنسی ہراسانی کے الزام کو ثابت کرتی ہے تو وہ ’پھانسی پر لٹکنے کے لیے تیار‘ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’انڈیا کی وزارت کھیل نے فیڈریشن سے 72 گھنٹوں کے اندر ان الزامات کا جواب طلب کیا ہے۔‘