’کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہے کیونکہ یہاں جتنے بھی بچے ہیں وہ میری طرح ہیں جن کے والد کو دہشت گردوں نے قتل کیا۔‘
یہ کہنا تھا سوات کے پرورش ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والےبچے کا جن کے والد کو دہشت گردوں نے سوات میں قتل کیا تھا۔ 2008 سے 2009 تک سوات دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا جس کے بعد ملٹری آپریشن کے نتیجے میں سوات کے امن کو بحال کیا گیا لیکن اس ساری صورتحال نے اپنے پیچھے ہزاروں داستانیں اور دردناک کہانیاں چھوڑی ہیں۔
ہزاروں بچے یتیم ہوئے۔ ان میں سے ایک ناصر بھی ہیں جو اب ایک یتیم خانے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اپنے والد کی ہلاکت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ نو سال کا تھا جب ایک صبح اٹھنے پر معلوم ہوا کہ اچانک دوست گھر آئے بیٹھے ہیں۔
’دوستوں نے بتایا کہ میرے والد اوپر پہاڑ کی طرف گئے تھے جہاں پر طالبان نے ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔‘
والد کی ہلاکت کے بعد ناصر کے مطابق ان کی تعلیم اور زندگی بہت متاثر ہوئی تھی لیکن اب پرورش ادارے کی مدد سے اتنا قابل ہوگیا ہوں کہ 12ویں جماعت میں پڑھ رہا ہوں۔
سوات میں ناصر کی طرح آپریشن اور دہشت گردی کی وجہ سے یتیم ہونے والے بچوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان بچوں کے والدین یا دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں یا بم دھماکوں اور ملٹری آپریشن کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
پرورش ادارے کے ڈائریکٹر نعیم الرحمان کے مطابق سوات میں 10 ہزار سے زائد بچے یتیم ہوگئے ہیں جن میں سے صرف 1500 تک بچوں کو پانچ غیر سرکاری ادارے سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ باقی کا کچھ پتہ نہیں۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پرورش کی بنیاد 2009 میں رکھی گئی تھی اور ابھی تقریباً 500 کے قریب یتیم بچے یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سکول میں نرسری سے لے کر 12ویں تک بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جن سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔
سہولیات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پرورش ادارہ بچوں کو باپ کی طرح محبت تو نہیں دے سکتا لیکن ان کی تعلیم، کتابوں، رہنے کے لیے ہاسٹل، کھانا پینا، اور یہاں تک کے ان کو جیب خرچ بھی روزانہ کی بنیاد پر ملتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ناصر کی طرح دیگر بچوں کے ساتھ بھی میری ملاقات ہوئی۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے تھے جو اپنے والد کی موت کی دردناک کہانی کو بیان کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح بے دردی سے ان کے والدین قتل کیے گئے۔
پرورش میں بچوں کے علاوہ بچیاں بھی پڑھتے ہیں۔ ایک بچی نے بتایا کہ ان کے والد کو تختہ بیگ علاقے کے قریب طالبان نے ذبح کیا تھا۔
ان کی آنکھوں میں آنسوں تھے لیکن وہ پرامید تھی اور اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ بڑی ہو کر کیپٹن بننا چاہتی ہیں کیونکہ ’یہ میرے والد کا ارمان تھا‘۔
’میں چھوٹی تھی لیکن امی نے بتایا تھا کہ تمہارے والد یہی کہتے تھے کہ میں بڑی ہوکر کیپٹن بنوں گی اور اب میں بنوں گی اور والد کا ارمان پورا کروں گی۔‘
ان بچوں کا حکومت سے گلہ ضرور تھا کہ اس ساری صورتحال میں حکومت کی طرف سے وہ سپورٹ نہیں ملی جو ملنا چاہیے تھی۔ پرورش کے ڈائریکٹر نعیم نے بتایا کہ سوات میں اس وقت پانچ غیر سرکاری ادارے ہیں جہاں یہ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے ان کو کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔
نعیم الرحمان کے مطابق ان 10 ہزار بچوں کے مستقبل کو بچانے کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ورنہ یہ بچے کسی بھی وقت انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے جب ڈپٹی کمشنر سوات ثاقب اسلم سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ان بچوں کی تربیت حکومتی ترجیحات میں شامل ہیں اور حکومت کی طرف سے کچھ ادارے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت سپورت کیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ایک ادارہ ’خپل کور ماڈل سکول‘ کے نام سے کام کر رہا ہے ان کو حال ہی میں وزیر اعلیٰ کی جانب سے گرانٹ ملی ہے۔
’ہماری کوشش ہے کہ ان بچوں کی بہتر تربیت کر کے ان کو معاشرے کا کار آمد شہری بنائیں۔‘