ہم چاروں ہانپتے کانپتے اور اندر ہی اندر اپنے آپ کو خاموشی سے کوستے ہوئے وہ مشکل چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ اوپر سے آنے والے چار دوستوں کے ایک گروپ نے ہماری حالت دیکھ کر تسلی دینے والے انداز میں کہا، ’بس 20 منٹ اور۔‘ جس پر ہمارے ایک ساتھی نے سرگوشی میں کہا: ’یہ دل رکھنے کو تو نہیں کہہ رہے؟‘ لیکن وہ سرگوشی اتنی بلند تھی کہ وہاں موجود سب لوگوں نے ہی سنی، جس کے بعد ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا اور پھر دوسری طرف سے جواب آیا: ’ارے نہیں، واقعی بس 20 منٹ کا مزید سفر باقی ہے۔‘
زندگی میں کچھ سفر، کچھ واقعات اتنے اچانک ہوتے ہیں کہ آپ کو تیاری کا موقع ہی نہیں ملتا۔ یہ بھی ایسا ہی ایک سفر تھا جب کراچی سے تعلق رکھنے والے ہم چار دوستوں اور سابق کولیگز نے گلیات جانے کا پروگرام بنایا۔ نتھیا گلی پہنچ کر فیصلہ ہوا ہائیکنگ کا۔ گوگل میپ نکالا گیا اور طے ہوا کہ ہم مشک پوری ٹاپ جا رہے ہیں۔
’ارے واہ، مشک پوری ٹاپ! کتنا دور ہے؟‘ میں، جس نے پوری زندگی میں مشکل سے بلا مبالغہ چند کلومیٹر ہی واک کی ہوگی، کچھ زیادہ ہی پُر جوش تھی۔ گوگل میپ اور مقامی لوگوں سے معلومات لینے کے بعد پتہ چلا کہ ڈونگا گلی سے دائیں جانب تقریباً ایک ڈیڑھ کلومیٹر پکا راستہ اور اس کے بعد تقریباً ڈھائی کلومیٹر کچا راستہ طے کرکے منزل مقصود یعنی مشک پوری ٹاپ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ ’اُف اتنا سارا پیدل چلنا پڑے گا‘، میں نے دل ہی دل میں سوچا لیکن کہا کچھ نہیں کیونکہ بھرم بھی تو قائم رکھنا تھا۔
اس مقام کا اصل نام مکشپوری ہے۔ یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے ’نجات کی جگہ‘، لیکن یہ جگہ مشہور مشک پوری کے نام سے ہے۔
پہاڑوں اور وادیوں سے منسوب بے شمار دیومالائی داستانوں کی طرح اس جگہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوؤں کے لیے مقدس ہے۔ ایک روایت (جس کے بارے میں کچھ بہت زیادہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا) کے مطابق یہ جگہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہابھارت کے مرکزی کردار پانڈوو سے منسلک ہے، جو یہاں آرام و سکون کی غرض سے آتے تھے۔ مہابھارت کے کُل پانچ ہیروز یعنی پانڈوز ہیں، جنہیں ’پنج پیر‘ بھی کہا جاتا ہے، لہذا بعض روایتوں میں اسے ’پانڈو دا ستھان‘ یعنی ’پانڈو کی جگہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اب یہ تو ایک ہندو مذہبی روایت ہے، لیکن معروف مورخ علی جان اس جگہ کی اہمیت کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔
علی جان کے مطابق پہاڑ کے دامن سے پھوٹنے والے چشموں سے جاری ہونے والا پانی محفوظ کرنے کے لیے مشک پوری ٹاپ پر ٹینک بنائے گئے تھے، جس سے 1894 میں ایک پائپ لائن کے ذریعے مری کی پہاڑیوں کے آس پاس کی آبادیوں کو پانی فراہم کیا گیا۔ مری میں واقع یہ پانی کے ریزروائرز، جنہیں ٹونلے ٹینکس کہا جاتا ہے، آج بھی کشمیر پوائنٹ پر واقع اور مری تک پانی کی فراہمی کا مرکزی ذریعہ ہیں جبکہ پائپ لائن کے ساتھ واقع ٹریک سیاحوں میں بے حد مشہور ہے، جہاں گھڑ سواری سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔
خیر تاریخی اہمیت تو اپنی جگہ لیکن اُس وقت ہماری نظر میں اہمیت تھی اس سفر کی، جو ہمیں پیدل طے کرنا تھا کیونکہ ہمارے ڈرائیور نے ہمیں ڈونگا گلی کی اُس سڑک کے دہانے پر اتار دیا تھا، جہاں سے ہمیں اندر جانا تھا۔ کئی گھوڑے والوں نے ہمیں اپنا گاہک بنانا چاہا لیکن ہم نے ایک نہ سنی اور اُس راہ پر چل پڑے، جس کے بعد ہم تھے اور ہماری پھولی ہوئی سانسیں۔
تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کا وہ راستہ تو کچھ ہنستے کھیلتے گزر گیا، راستے میں ہمارے سیدھے ہاتھ پر گہری کھائی اور صنوبر کے اونچے اونچے درخت تھے تو دوسری طرف کچھ مکمل اور کچھ زیر تعمیر ریزورٹس، جن میں سے بیشتر کی ملکیت کا (جھوٹا) دعویٰ میری ایک ساتھی مسلسل کرتی جارہی تھیں اور ساتھ ہی انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر سٹوریز بھی اَپ ڈیٹ ہورہی تھیں۔
پکے راستے کے اختتام پر ایک چھوٹی سی چیک پوسٹ تھی، جہاں موجود گارڈ نے ہماری انٹری کی۔ ہم نے راستے کے بارے میں استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ دائیں طرف کا راستہ ڈھائی کلومیٹر طویل لیکن کچھ زیادہ چڑھائی والا ہے جبکہ بائیں طرف والا پانچ کلومیٹر طویل لیکن نسبتاً کم چڑھائی والا ہے۔
ہم پر ایڈونچر کا بھوت کچھ زیادہ ہی سوار تھا، لہذا آؤ دیکھا نہ تاؤ، چڑھ گئے ڈھائی کلومیٹر والے ٹریک پر اور تھوڑی ہی دیر میں سب کا ایڈونچر تھوڑا تھوڑا ہوا ہوگیا، معصوم ٹانگوں نے جواب دے دیا اور دل نے کہا کہ بس یہیں سے چپکے سے واپسی کی راہ لیجیے، آپ سے نہیں ہونے کا نہیں، لیکن پھر ہم نے دل کو سمجھایا کہ ایسے کیسے؟ ابھی تو ہائیکنگ شروع ہوئی ہے۔
خیر سفر کا دوبارہ آغاز ہوا اور پانی پیتے پلاتے، جگہ جگہ رکتے رکاتے تھوڑا اوپر پہنچے، جہاں ایک 13 سالہ بچہ اپنا سٹال لگائے بیٹھا تھا۔ بس اسی کی بینچ پر پڑاؤ ڈال دیا۔ شہزاد نامی یہ بچہ سکول میں زیرِ تعلیم اور انجینیئر بننا چاہتا تھا۔ اس بچے سے بات چیت کے دوران میں نے اپنے ساتھیوں کے سامنے دکھڑا رویا: ’مجھے سٹک لے لینی چاہیے تھی، تاکہ چڑھائی چڑھنے میں آسانی ہوتی‘، یہ سننا تھا کہ شہزاد نے فوراً اپنی سٹک مجھے دے دی کہ ’باجی آپ یہ لے لیں‘ اور میں اس مہربانی پر جتنی شکر گزار ہوئی، وہ بیان سے باہر ہے۔
دوبارہ چڑھائی پر جاتے ہوئے سٹک کی وجہ سے اتنی دقت نہیں ہوئی، جتنی پہلے ہوئی تھی۔ سب سے دلچسپ اوپر سے آنے والے ہر گروپ کی یہ طفل تسلیاں تھیں کہ ’بس 20 منٹ اور۔‘
اور اسی طرح 20، 20 منٹ کرتے کرتے ہم ڈھائی، تین گھنٹے میں تقریباً 2800 میٹر بلندی پر واقع مشک پوری ٹاپ پر پہنچ گئے۔
پہاڑ کی چوٹی تھی یا جنت، بیان سے باہر ہے۔
تھکن کے مارے ہمارا برا حال تھا لیکن ’کامیابی‘ (بے شک چھوٹی سی) کا سرور سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ چوٹی پر موجود بڑے بڑے کالے سیاہ ’بدمعاش‘ قسم کے کوؤں نے اپنی ’کائیں کائیں‘ سے ہمارا استقبال کیا، جسے سن کر شہری کوؤں کی معصوم سی ’کائیں کائیں‘ یاد آگئی اور دل میں عہد کیا کہ آئندہ انہیں بالکل بھی برا بھلا نہیں کہیں گے۔
مشک پوری ٹاپ پر کافی، چائے کے ایک دو سٹالز موجود تھے، جو کسی نعمت سے کم نہیں تھے۔ دل کیا یہیں ٹھہر جائیں، لیکن بادلوں کے بیچوں بیچ کھلے پہاڑ پر بغیر خیمے کے گزارا مشکل تھا اور وہ ہم ساتھ لائے نہیں تھے، لہذا واپسی ہی بہترین آپشن تھا۔
واپسی کا سفر نہایت ہی آسان تھا، کسی مشقت کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ قدم یوں جیسے خود بخود اٹھ رہے ہوں، لیکن ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اس ایڈونچر کی تکمیل میں سب سے بڑا کردار ’بس 20 منٹ‘ کا تھا۔ اگر نیچے آنے والے تمام لوگ ’20 منٹ‘ کی ٹوپی نہ کرواتے تو ہم نے شاید درمیان میں سے ہی واپس پلٹ جانا تھا۔
انہی باتوں کو یاد کرتے، خوشگوار یادیں سنبھالتے، تھکن سے چور ہم چاروں آدھے سے زیادہ راستہ پیدل اور تھوڑا سا راستہ گاڑی میں طے کرکے نیچے پہنچے اور ڈونگا گلی کے ایک ریسٹورنٹ میں پناہ لی، جہاں چکن کڑاہی اور تکے کا لطف اٹھاتے اٹھاتے ہمیں مغرب ہوگئی۔
اب واپسی کا سفر شروع ہوچکا تھا، لیکن اس عہد کے ساتھ کہ ہائیکنگ اور ’بس 20 منٹ اور‘ کا یہ سلسلہ چھوٹنا نہیں چاہیے۔ اب دیکھیے یہ عہد دوبارہ کب اور کیسے وفا ہوتا ہے!