امریکی فوجی حکام نے پاکستانی نژاد قیدی ماجد خان کو سزا پوری ہونے پر کیوبا میں واقع بدنام زمانہ گوانتانامو بے جیل سے رہا کر کے وسطی امریکی ملک بیلیز بھیج دیا ہے۔ ان پر القاعدہ کے لیے رقم کی ترسیل کے لیے بطور کوریئر کام کرنے کا الزام تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی شہر بالٹی مور میں پرورش پانے والے ماجد خان کو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے خفیہ مقامات پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے گوانتاناموبے کے بدنام زمانہ حراستی مرکز میں 16 سال قید کی سزا کاٹی ہے۔
وسطی امریکی ملک بیلیز کی حکومت کے ساتھ بائیڈن انتظامیہ کے معاہدے کے تحت انہیں جمعرات کو وہاں پہنچایا گیا۔
اوباما انتظامیہ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ امریکی حکام گوانتانامو بے کے ان قیدیوں کو قبول کرنے والے ایک تیسرے ملک کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جنہیں امریکہ اب کوئی خطرہ نہیں سمجھتا۔
پاکستانی نژاد امریکی شہری ماجد خان کو مارچ 2003 میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں اکتوبر 2021 میں ایک فوجی جیوری نے جنگی جرائم کے مقدمے میں 26 سال کی قید کی سزا سنائی تھی۔
ان پر انڈونیشیا میں 2003 کے ہوٹل بم دھماکے کی مالی معاونت کے لیے پاکستان سے 50 ہزار ڈالر کوریئر کرنے اور کئی ایسے حملوں کی منصوبہ بندی میں حصہ لینے کے الزامات ہیں۔ وہ چند حملے جن کی منصوبہ بندی کا ماجد خان پر الزام عائد کیا گیا، ان پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوسکا تھا۔
ماجد خان کے وکلا کا کہنا تھا کہ انہیں گذشتہ سال فروری میں پہلے ہی پری ٹرائل معاہدے کے تحت رہا کر دینا چاہیے تھا۔
گذشتہ ماہ کے آخر میں پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں ماجد خان سے متعلق سوال کے جواب میں وزارت خارجہ نے بتایا تھا کہ ان کے پاس تاحال معلومات نہیں ہیں۔ ’جلد معلومات حاصل کر لی جائیں گی۔ ماجد خان ان قیدیوں میں شامل ہیں، جن کی پاکستانی شناخت نہیں ہو سکی۔‘
40 سالہ ماجد خان نے رہائی کے بعد اپنی قانونی ٹیم کے ذریعے ایک بیان میں کہا کہ انہیں اپنی نوجوانی کے دور میں القاعدہ کے ساتھ کام کرنے پر بہت افسوس ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا: ’میں آپ سب سے، خاص طور پر بیلیز کے لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں معاشرے کا ایک مثبت اور قانون کی پاسداری کرنے والا رکن بنوں گا اور میں آپ کو نا امید نہیں کروں گا۔‘
2006 میں کیوبا میں امریکی اڈے پر قائم فوجی جیل میں منتقل ہونے سے پہلے ماجد خان نے تقریباً تین سال سی آئی اے کی بیرون ملک قائم ’بلیک سائٹس‘ میں گزارے۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تحت سی آئی اے نے کئی خفیہ مقامات کا استعمال کیا اور بہت تھوڑے یا کوئی حقیقی ثبوت نہ ہونے کے باوجود کچھ لوگوں کو وہاں قید کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔
2014 میں جاری ہونے والی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ میں ماجد خان کے ساتھ ہونے والے تشدد کا تفصیلی ذکر کیا گیا تھا جس میں سی آئی اے پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے القاعدہ کے قیدیوں کے ساتھ ماورائے قانون اقدامات کیے۔
ماجد خان نے فوجی عدالت کو بتایا تھا کہ ان پر کیے گئے تشدد میں لمبے عرصے تک چھت کے شہتیر سے لٹکانا، کئی دنوں تک نیند سے محروم رکھنے کے لیے برف کے پانی میں ڈالا جانا، مار پیٹ، پانی میں تشدد، جنسی زیادتی اور بھوک کا نشانہ بنانا شامل تھا۔
ماجد خان کو 2012 میں ایک امریکی فوجی کمیشن کے سامنے قصوروار ٹھہرایا گیا اور 2021 میں انہیں 26 سال کی سزا سنائی گئی حالانکہ پری ٹرائل معاہدے کے تحت امریکی حکام کے ساتھ تعاون کی وجہ سے اس مدت کو 11 سال سے کم کرنے کی ضرورت تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماجد خان کی رہائی کے بعد ان کے وکیل کاتیا جسٹن نے ایک بیان میں کہا: ’یہ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے ایک تاریخی فتح ہے لیکن یہاں تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگا۔‘
امریکی محکمہ دفاع نے بیلیز حکومت اور دیگر افراد کا شکریہ ادا کیا جو گوانتانامو کے قیدیوں کے لیے امریکہ سے باہر دوبارہ آبادکاری کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پینٹاگون نے یہ بھی کہا کہ امریکہ گوانتاناموبے کو بالآخر بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
2006 میں گوانتانامو منتقل ہونے کے بعد سے ماجد خان کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی ویلز ڈکسن نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ بیلیز حکومت کے ساتھ معاہدہ اور ماجد خان کی وہاں رہائش تیسرے ملک میں مزید قیدیوں منتقلی کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کریں گی۔
2003 میں گوانتاناموبے جیل میں تقریباً 600 ایسے افراد قید تھے جنہیں امریکہ دہشت گرد سمجھتا تھا۔
اس حراستی مرکز کو استعمال کرنے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے مزید حملوں کو روکنے میں مدد ملی جب کہ گوانتانامو کے بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نظام نے انسانی حقوق اور آئینی حقوق کو پامال کیا اور امریکہ کے اثر و رسوخ اور اخلاقی حیثیت کو مجروح کیا۔
پینٹاگون کے مطابق گوانتاناموبے میں اب 34 قیدی باقی ہیں جن میں سے 20 تیسرے ملک میں منتقلی کے اہل ہیں۔ موجودہ قیدیوں میں اکثریت کا تعلق یمن سے ہے۔