پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے آڈیو لیکس پر تحقیقات مکمل ہونے اور حکومت کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے خلاف مقدمہ پیکا ایکٹ کی شق 20 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے اور 505 کے تحت درج کیا گیا ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت نے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی گرفتاری کی منظوری دے دی ہے۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے وفاقی حکومت سے شوکت ترین کی گرفتاری کی اجازت طلب کی تھی جو دے دی گئی ہے۔
شوکت ترین کے خلاف درج ایف آئی آر میں سابق صوبائی وزرائے خزانہ محسن لغاری اور تیمور جھگڑا سے ہونے والی گفتگو کا متن بھی شامل کیا گیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے خلاف عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کو ’سبوتاژ‘ کرنے میں ان کے مبینہ کردار سے متعلق تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے شوکت ترین کی آڈیو لیکس کی ابتدائی انکوائری مکمل کر لی ہے، جس میں شوکت ترین کی لیک ہونے والی گفتگو کو آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام اور فنڈز میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا، جس سے قومی مفاد کو نقصان پہنچا۔
گذشتہ سال اگست میں دو آڈیو لیکس منظر عام پر آئی تھیں، جن میں مبینہ طور پر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کو خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو ہدایات دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت اور آئی ایم ایف کو خطوط کے ذریعے آگاہ کریں کہ خیبرپختونخوا حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث صوبے کا سرپلس بجٹ تیار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔
ایف آئی اے نے بعد ازاں سابق وزیر خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ ذاتی طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر میں اپنے دفاع میں بیان ریکارڈ کرنے کے لیے حاضر ہوں۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدہ کیا ’جس پر عمل کرتے ہوئے ہم یہاں تک پہنچے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شوکت ترین کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے 16 اپریل 2021 کو وزیر خزانہ کی حیثیت سے وفاقی کابینہ میں شامل کیا تھا۔
انتخابات
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے دو صوبوں کی اسمبلیاں ’بزور طاقت‘ تحلیل کروائیں، جو آئین کی سراسر خلاف ورزی تھی۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کام ہے اور ان کی جماعت کسی بھی وقت اس سرگرمی کے لیے تیار ہے۔
’الیکشن اکتوبر میں ہوں یا اس سے پہلے ہو جائیں ہم دونوں صورتوں میں تیار ہیں۔‘
تاہم رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر اور ملک کی موجودہ معاشی اور امن و امان کی صورت حال کا حل انتخابات نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نگران حکومتوں کے بغیر ہونے والے انتخابات کے نتائج کو کوئی قبول نہیں کرے گا اور ملک میں انارکی کی فضا قائم ہونے کا خطرہ موجود رہے گا۔