پاکستان کی پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں ارکان پارلیمان نے ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور ملٹری آپریشنز کے سربراہان کو بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت پیر کو ہونے والے مشترکہ اجلاس میں ارکان پارلیمان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے کیے گئے مذاکرات سے متعلق تفصیلات پر بریفنگ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
مشترکہ اجلاس کے ایجنڈے میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات، ملکی معاشی صورت حال، خارجہ پالیسی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، قومی اداروں کا احترام، مسئلہ کشمیر، چین پاکستان اقتصادی راہداری اور آبادی میں اضافے سے متعلق آٹھ نکات شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے دہشت گردی سے متعلق ایجنڈا مشترکہ اجلاس کی کارروائی میں شامل ہونے پر وفاقی وزیر داخلہ کی عدم موجودگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’ایسے موقع پر انہیں ایوان میں ہونا چاہیے تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے حکومت اپنا پالیسی بیان دے، ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری (ڈی جی ایم او) کو بلایا جائے، وہ ایوان کو طالبان سے مذاکرات سے متعلق بریفنگ دیں، اس کے بعد سیر حاصل بحث ہو گی۔‘
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے حالیہ دنوں میں پشاور میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اتنے بڑے واقعے کے بعد حکومت اور وزرا کی سنجیدگی نظر نہیں آ رہی۔ پشاور میں 100 سے زائد لاشیں اٹھائی گئیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ ’مئی سے دسمبر تک 376 حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں دہشت گردوں کا راج ہے۔ وزیرستان میں 500 سے زائد افراد ٹارگٹ کلنگ سے مارے جا چکے ہیں۔ دو ہزار ارب روپے فوج، پولیس اور عدلیہ کو عوام دے رہے ہیں لیکن تحفظ نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پیسے دینے کے باوجود تحفظ کیوں قائم نہیں ہو رہا؟ لوگ وہاں اب لاشیں اٹھاتے تھک چکے ہیں۔ یہ سکیورٹی کی ناکامی تھی۔ وار آن ٹیرر کا فیصلہ ہمارا نہیں صرف ایک فرد کا تھا۔‘
اس موقع پر مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے دہشت گردی کی موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نیشنل ایکشن پلان پر صوبے اور وفاق میں کتنا عمل ہوا؟ اس کو بنائے گئے دس سال ہو گئے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ سوال تو بنتا ہے کہ ایک صوبے میں ایک جماعت کی دس سال سے حکومت تھی، محبت کے پجاریوں سے پوچھنا بنتا ہے کہ ٹی ٹی پی سے پانچ ہزار لوگوں کو کس نے یہاں لا بٹھایا؟ ایک کمیٹی بنائی جانی چاہیے جو ان معاملات کا جائزہ لے۔ ماضی میں ن لیگ کے دور حکومت نے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی۔‘
ان کے مطابق ’طالبان کی کمیٹی میں عمران خان کا نمائندہ رستم شاہ مہمند حکومت سے مذاکرات کرتا رہا۔ ان چار سالوں میں کیا ہوا؟ کوئی مل بیٹھا یا مذاکرات ہوئے ہیں؟ پارلیمان کی کمیٹی بنانی ہوگی جو ان معاملات کو دیکھے۔‘