خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس لائن مسجد دھماکے اور صوبے میں شدت پسندی کی لہر دوبارہ اٹھنے کے خلاف ’پشاور اولسی پاسون‘ (پشاور قومی تحریک) کی جانب سے مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرے میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، نیشنل ڈٰیموکریٹک موومنٹ، پشتون تحفظ موومنٹ سمیت مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے قائدین نے شرکت کی۔ مقررین کا مطالبہ تھا کہ پشتون قوم اس خطے پر مزید جنگ برداشت نہیں کرے گی۔
مظاہرے میں پشاور سمیت دیگر اضلاع سے بھی شرکا شرکت کے لیے آئے جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی دیکھی گئی۔
قبل ازیں سوات میں شدت پسندی کے بعد اولسی پاسون کی جانب سے مختلف علاقوں میں بڑے مظاہرے دیکھے گئے تھے جن میں عوام نے شدت پسندی کے نئے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا۔
پشاور پریس کلب کے باہر مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بہت جنازے اٹھائے ہیں لیکن اب خطے کو مزید اس جنگ میں دھکیلنے سے بچائیں گے۔‘
’ہم اس مٹی کی خاطر ہر قسم کی قربانی کو تیار ہیں۔ ہمارے بچوں کے قاتلوں کو جس نے بھی راستہ دیا ہے، وہ ہماری قوم کا دشمن ہے۔ میں نے اس مٹی کے لیے اپنے بیٹے کی قربانی دی ہے، ہم سب نے اس مٹی کی خاطر اٹھنا ہے اور اسے بچانا ہے۔‘
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ ’مزید جنازے اٹھنا برداشت نہیں کریں گے۔ پولیس لائن دھماکے میں ہمارے پولیس جوانوں کو شہید کیا گیا۔ یہ پولیس پر نہیں بلکہ پشتونوں پر حملہ ہے۔‘
’بدامنی کے خلاف تمام تر سیاسی اور ذاتی اختلافات کو بھلا کر ہمیں اکٹھا ہونا ہے کیونکہ ہم مزید بچوں کو یتیم نہیں دیکھنا چاہتے اور نہ مزید خواتین کو بیوہ دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ بھی سٹیج پر موجود تھے۔ محسن داوڑ نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری بقا کا واحد راستہ باچا خان کا عدم تشدد کا فلسفہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محسن داوڑ نے مزید کہا کہ ’اب اس خطے کے جوان بیدار ہو چکے ہیں، اور اس مٹی کے ہر ایک بچے کی یہ سوچ ہونی چاہیے کہ ہم نے عدم تشدد کے فلسفے پر عمل کرنا ہوگا۔‘
مظاہرے میں یونیورسٹی کے طلبہ، وکلا، اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
مظاہرے میں شریک نوشہرہ میڈیکل کالج کے طالب محمد اسد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’آرمی پبلک سکول حملے کے بعد جو نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اسی طرح کا پلان دوبارہ بنانا چاہیے تاکہ شدت پسندی کی نئے لہر پر قابو پایا جا سکے۔‘
’ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہم اس پشتون خطے میں امن چاہتے ہیں اور بلا تفریق شدت پسندوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے۔‘
مظاہرے میں شریک پشاور ہائی کورٹ کے وکیل عمر خان نے کہا کہ ’جس طرح دیگر صوبوں میں امن ہے، اسی طرح ہم خیبر پختونخوا میں بھی امن چاہتے ہیں تاکہ ہم سکون سے زندگی گزار سکیں۔‘
’ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم ملک چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ اس قسم کے بد امنی کے ماحول میں نہ ہم پڑھ سکتے ہیں اور نہ کام کر سکتے ہیں۔‘
مظاہرے میں شریک رکن نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ پلوشہ عباس کا کہنا تھا کہ ’بم دھماکوں کے متاثرین کو شہدا پیکج تو دیا جاتا ہے تاہم شہیدوں کے بچوں اور بیواؤں کے مستقبل کے حوالے سے ریاست کے پاس کوئی پالیسی نہیں۔‘