پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر خزانہ و صحت تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے کہ ان کی اور سابق وفاقی وزیر خزانہ کے درمیان ذاتی بات چیت میں ’جس خط کا ذکر کیا گیا تھا انہیں اس پر کوئی پچھتاوا نہیں‘ ہے۔
یہ بات انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہی ہے۔
ایک جانب پی ٹی آئی نے عنقریب ’جیل بھرو تحریک‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے، وہیں پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وصوبائی رہنماؤں کی گرفتاری کی خبروں میں تیمور جھگڑا کا نام بھی لیا جارہا ہے اور بعض تجزیہ کاروں اور قانون دانوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے سابق وزیر خزانہ بھی گرفتاری کی زد میں آسکتے ہیں۔
تیمور جھگڑا نے بتایا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے انہیں سمن نہیں بھیجا اور نہ ان کی گرفتاری جائز ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ’جس طرح شوکت ترین کو ناحق گرفتار کیا جارہا ہے، بےاعتباری کی ایسی فضا میں کچھ بھی ممکن ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے جب ان سے سوال کیا کہ کیا شوکت ترین کے ساتھ وہ اپنی ٹیلیفونک بات چیت پر پچھتا رہے ہیں اور آیا انہیں اب محسوس ہوتا ہے کہ اس موضوع کو چھیڑنا ہی نہیں چاہیے تھا، تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات پر پچھتاوا ضرور ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں، جہاں ذاتی گفتگو کو ریکارڈ کرنا، لیک کرنا اور اس پر بحث کرنا صحیح سمجھا جاتا ہے۔
’اگر آپ یہ پوچھیں کہ جو خط میں نے لکھا اس پر مجھے پچھتاوا ہے؟ تو میرا جواب نہیں میں ہوگا۔ اگر کوئی مجھے اس خط میں ایک بھی بات بتا دے کہ میں نے غلط لکھی ہو۔ وہ خط وفاقی وزیر خزانہ کو لکھا تھا۔ وہ خط صوبے کے مفاد میں تھا۔ اس خط پر عمل نہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے اپنی پوزیشن کمزور کیا اور صوبے کو بھی محروم کیا۔‘
تیمور جھگڑا نے مزید بتایا کہ سابق وفاقی وزیر خزانہ کو خط لکھ کر جن مسائل اور حالات کی نشاندہی کرکے مستقبل پر روشنی ڈالی تھی، وہی حالات بن گئے ہیں۔
’مجھے یہ پچھتاوا ضرور ہوتا کہ اگر مجھے کبھی بھی لگتا کہ میں ملک کو نقصان پہنچا رہا ہوں۔ میں نے وہ خط سوچ سمجھ سے لکھا تھا، تاکہ ائی ایم ایف کی ڈیل کو کوئی ایشو نہ ہو۔ اس کے بعد مفتاح اسماعیل کو ہٹایا۔ جیسے بھی آئی ایم ایف کی ڈیل سائن ہوئی اس پر عمل نہ کرکے انہوں نے ہی ملک کو نقصان پہنچایا۔‘
تیمور جھگڑا جو وزیر صحت بھی رہے ہیں، نے بتایا کہ والد سلیم جھگڑا نے بیٹے کو نصیحت کی تھی کہ صحت کا قلمدان لینے سے انکار کردیں۔
’مجھے میرے والد نے کہا کہ یہ جاب نہ لو۔ میں نے پوچھا کیوں۔ تو انہوں نے کہا کہ بیٹا اس میں تم پر الزام لگیں گے، آپ چاہے جتنی بھی محنت کرو گے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں پاکستان اس لیے آیا ہوں کہ ایک چیلنجنگ کام کروں اور عمران خان کے ساتھ اسی وعدے کے تحت صحت میں ہم نے 200 فیصد محنت کی۔‘
سابق وزیر صحت نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں 99 فیصد ڈاکٹر بہت اچھا کام کررہے ہیں، صرف ایک فیصد ڈاکٹر ایسے ہیں جو سیاست کررہے ہیں۔