امیتابھ بچن دیکھ رہے تھے کہ عکس بندی دیکھنے والوں میں سے ایک شخص بار بار فقرے کس رہا تھا۔ جے پور میں فلم ’گنگا کی سوگند‘ کی عکس بندی چل رہی تھی۔ گاؤں کے ایک منظر کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا جارہا تھا۔
اب ظاہری سی بات ہے کہ جس فلم میں امیتابھ بچن ہوں تو چاہنے والوں کا تو ایک سیلاب سیٹ پر امڈ آئے گا اور کچھ ایسا ہی ہوا۔ امیتابھ بچن اور ریکھا کے درمیان مکالموں کا تبادلہ ہونا تھا۔
بھارت کے 1977 کے اس سنہری فلمی دور میں امیتابھ بچن اور ریکھا کی ’گنگا کی سوگند‘ کے علاوہ ’مقدر کا سکندر‘ کی عکس بندی زورں پر تھی۔ صرف یہی بات ہوتی تو کچھ انوکھا نہیں ہوتا لیکن فلمی حلقوں اور جریدوں میں ریکھا اور امیتابھ بچن کی محبت کے فسانے موضوع بحث بنے ہوئے تھے۔
ہدایت کار سلطان احمد کی اس تخلیق ’گنگا کی سوگند‘ میں امیتابھ بچن اور ریکھا ’دو انجانے‘، ’الاپ‘ اور ’خون پسینہ‘ کے بعد ایک ساتھ کام کر رہے تھے جبکہ دیگر ستاروں میں امجد خان نمایاں تھے، مگر نگاہوں میں صرف ریکھا اور امیتابھ بچن ہی تھے۔
کچھ تو مرچ مصالحہ لگا کر ریکھا اور امیتابھ کی پیار بھری کہانی کو پیش کر رہے تھے۔ یہاں تک مشہور تھا کہ یہ پریمی جوڑا بہت جلد بیاہ بھی رچانے والا ہے۔
ایسے میں کچھ فلمی جرائد وہ بھی تھے جو ریکھا کو ’ویمپ‘ (بری عورت) بنا کر پیش کرتے۔ قدامت پسند فلمی جرائد کا ماننا تھا کہ ریکھا، امیتابھ بچن کی زندگی میں آئی ’دوسری عورت ہیں جو جیا بچن کی گھرداری کو برباد کرنے پر تلی‘ ہوئی ہیں۔
یہاں تک لکھا جا رہا تھا کہ ریکھا، ’گھر توڑنے والی اداکارہ‘ ہیں، جو صرف اور صرف اپنی ذات کا سوچتی ہیں۔ اب ایسے میں جیا بچن ایک مظلوم، بے بس اور لاچار مشرقی بیوی بن کر پیش کی گئیں جو شوہر کی بے وفائی کو خاموشی سے سہہ رہی ہیں۔ اس سارے فسانے میں ریکھا کے بارے میں منفی خیالات عام ہوتے جارہے تھے۔
امیتابھ بچن بار بار اپنے مکالمات بھول جاتے تو کبھی یہی صورت حال ریکھا کے ساتھ ہوتی۔
ہجوم میں کھڑے ایک شخص کی جملہ بازی سے اس کے ساتھ دوسرے بھی محظوظ ہوتے جارہے تھے جو انہیں اور لقمے دیتے۔ یہ شخص بار بار ریکھا پر طنز کے نشتر برسا رہا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے نا زیبا جملے بھی کہنا شروع کر دیے جسے سن کر ہجوم اور کھلکھلا رہا تھا۔
وہ شخص ریکھا کو امیتابھ بچن کی ازدواجی زندگی میں دراڑیں ڈالنے کا قصوروار ٹھہرا رہا تھا۔ اب وہ شخص دھیرے دھیرے حد پار کرتا جارہا تھا۔ نوبت بازاری اور عامیانہ جملوں تک پہنچ چکی تھی۔
امیتابھ بچن اس شخص کی بار بار مداخلت سے اب جلال میں آرہے تھے۔ ادھر ریکھا بھی خاصی نروس ہوچکی تھیں۔ فلمی ستارے فقرے سننے کے عادی ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی آپ کی نجی زندگی یا واقعے کو موضوع بنا کر فقرے کسے تو اداکار ایسی صورت حال سے گھبرانے لگتے ہیں۔
کئی بار ریکھا نے جھلا کر اس شخص کی طرف دیکھا۔ اب امیتابھ بچن کا بھی پارہ بلند ہوگیا اور پھر اچانک ہی پردہ سیمیں پر ’اینگری مین‘ بننے والے امیتابھ بچن حقیقی زندگی میں بھی کچھ ایسا ہی روپ دھار چکے تھے۔
بھارتی صحافی یاسر عثمان کی ریکھا کی زندگی پر لکھی کتاب ’ریکھا۔ دی اَن ٹولڈ سٹوری‘ کے مطابق فقرے کسنے والے اس شخص کو بار بار تنبیہ بھی کی گئی لیکن وہ باز نہیں آ رہے تھے۔ امیتابھ بچن جو اپنے ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے مشہور تھے، اس شخص کی وجہ سے ایسے اشتعال میں آئے کہ اس پر اچانک حملہ کر دیا۔
اب امیتابھ بچن حقیقی لڑائی لڑ رہے تھے اور بیچ بچاؤ کروانے کے لیے فلم یونٹ بھی موجود تھا۔ بڑی مشکل سے معاملے کو سنبھالا گیا۔ وہ شخص بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتا ہوا سیٹ سے چلا گیا۔
سب کو ایسا ہی لگا کہ معاملہ رفع دفع ہوگیا لیکن ایسا نہیں تھا۔ اس واقعے کے چند ہی گھنٹوں بعد سیٹ پر وہی شخص آ دھمکا لیکن اس بار اس کے ساتھ چھ، سات اور لوگ تھے جنہوں نے سیٹ پر توڑ پھوڑ شروع کر دی۔
امیتابھ بچن اس وقت میک اپ کروا رہے تھے۔ اس مشتعل ہجوم کے یہی ارادے لگ رہے تھے کہ وہ انہیں لہولہان کرکے ہی جائیں گے۔ ایسے میں امیتابھ بچن نے پھر سے ہیرو بننے کے بجائے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو ان سب سے چھپائے رکھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فلم میں ولن کا کردار ادا کرنے والے امجد خان اس ساری صورت حال سے واقف تھے، جبھی انہوں نے اس غصے سے بھرے ہجوم بالخصوص اس شخص کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کا یہی کہنا تھا کہ امیتابھ بچن نے ہاتھ اٹھا کر بہت بڑی غلطی کی، اب اس کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔
امجد خان نے یہاں مفاہمت کی بادشاہ گری دکھاتے ہوئے اس چھوٹے سے لڑاکا گروپ کو اس بات کے لیے قائل کر لیا کہ وہ کچھ اور ہنگامہ برپا نہیں کریں گے اور امیتابھ بچن کی طرف سے وہ معذرت کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اگلے دن فلم کے یونٹ کے ساتھ یہاں سے چلے بھی جائیں گے۔ جس ہجوم کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا وہ اس بات کو اپنی بڑی کامیابی مان کر کہ فلم یونٹ کو انہوں نے اپنے علاقے سے باہر نکلوادیا، فخریہ انداز میں نعرے لگاتا عکس بندی کے مقام سے جاچکا تھا۔
اگلے دن مختلف اخبارات میں اس واقعے کو نمایاں انداز میں شائع کیا گیا جبکہ اس کے بعد تو افواہوں اور قیاس آرائیوں کا ایک نیا دور شروع ہوا، جس میں ریکھا اور امیتابھ بچن کے رومانوی قصے اور عام ہونے لگے۔
امیتابھ بچن کا یوں جنونی ہو کر اس شخص پر حملے کو یہ کہہ کر پیش کیا گیا کہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے، جس کی تردید امیتابھ بچن نے کی اور نہ ہی ریکھا نے جبکہ ’گنگا کی سوگند‘ کے بعد اس جوڑے نے ’مقدر کا سکندر،‘ ’سہاگ،‘ ’مسٹر نٹورلال،‘ ’رام بلرام‘ اور آخری بار فلم ’سلسلہ‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔
بہرحال کئی کا ماننا تھا کہ امیتابھ بچن نے ہیرو ہو کر ولن والا عمل کیا جبکہ امجد خان نے ولن ہوتے ہوئے ہیرو والا۔