پاکستان سپر لیگ کے آٹھویں سیزن کا آغاز ہونے جا رہا ہے تاہم اس بار بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی ٹیم میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کی تعداد بہت کم ہے۔
بلوچستان میں کرکٹ کے شوقین افراد کی تعداد زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود یہاں سے معیاری کھلاڑی سامنے نہیں آرہے ہیں جو پاکستان اورعالمی سطح پر نمائندگی کر سکیں۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان کرکٹ بورڈ منیجمنٹ کمیٹی کے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممبر گل محمد کاکڑ سے جب سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں پرکرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے، پھر کس طرح ممکن ہے کہ اس معیارکا کوئی کھلاڑی پیدا ہوسکے، جسے پی ایس ایل کے فرنچائز والے نظرانداز بھی نہ کرسکیں۔‘
’بلوچستان سے کھلاڑیوں کے سامنے نہ آنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں کھیل کے میدان اورتربیت کے لیے نیٹس اور دیگر سہولیات کی کمی ہے، جتنے کراچی اورلاہور میں میدان ہیں اتنے ہمارے پورے صوبے میں نہیں ہیں۔‘
’جہاں انفراسٹرکچر نہیں ہوگا وہاں کیسے کسی بھی کھیل کے لیے کھلاڑی پیدا ہوسکیں گے۔ جس معیار کی سہولیات ہونی چاہئیں وہ ہمارے پاس نہیں ہیں، میدان نہیں ہے، نیٹس نہیں ہیں پھر لوگوں کا یہ بھی گلہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی کرکٹ کو جو ترجیح یہاں ملنی چاہیے وہ بھی کم ہے۔‘
گل محمد کاکڑ کے مطابق ’دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ کوئٹہ کے نام سے قائم ٹیم، میں ان کے مالک یا انتظامیہ کو الزام نہیں دوں گا، لیکن وہ اس طریقے سے یہاں پر رابطے میں نہیں جس طرح پشاورزلمی اور لاہور قلندر اپنے صوبوں میں ہوتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسرے فرنچائز پورے سال اپنے صوبوں میں کرکٹ پر فوکس کرتے ہیں، اگر ہمارے ضلعوں میں کھلاڑی تلاش کریں انہیں منتخب کریں تو ایسے بہت سے لڑکے ہوں گے جو سلیکٹرز کے نظروں میں آ جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پی ایس ایل میں ہماری فرنچائز کی ٹیمیں ہیں، ہرفرنچائز کے مالک نے بڑی قیمت دے کر اس ٹیم کو خریدا ہے، اب ظاہر ہے جو ایک چیزخریدتا ہے تو اس کی کوشش ہوگی کہ اس کا معیار بھی ٹھیک ہو اور اس پر جو سرمایہ کاری ہوئی ہے، اس سے کچھ حاصل بھی ہو۔‘
’کرکٹ کا کھیل بھی اب مہنگا ہوتا جا رہا ہے، ایک عام سا بلا بھی دس ہزار سے کم نہیں ہے، اسی طرح بال بھی مہنگے ہوگئے ہیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں پر سپانسر ہوں اور محکموں کو لایا جائے تاکہ وہ کھلاڑی منتخب کریں اور ان کو تربیت دیں۔‘
’لیکن جن لڑکوں میں قابلیت اور صلاحیت ہے وہ اپنا راستہ نکال رہے ہیں، میں اس کی مثال حالیہ پی ایس ایل کے منتخب ہونے والے عبدالواحد بنگلزئی کی دے سکتا ہوں، جو انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نوجوان نے اپنی محنت جاری رکھی اورآج وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے!‘