پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا آٹھواں سیزن شروع ہو چکا ہے۔ ٹکٹوں کی فروخت جاری ہے اور نئی چمکتی ٹرافی کی رونمائی بھی ہو چکی ہے۔
ٹیموں نے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور بعض کھلاڑیوں نے تو اپنے ارادوں کا اعلان بھی جارحانہ انداز میں کیا ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ویسے تو ہے ہی جارحانہ کرکٹ اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس فارمیٹ کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
چھکوں، چوکوں کی برسات کسے پسند نہیں اور وہ بھی تب جب معلوم ہو کہ بس 20 اوورز ہی کی تو بات ہے، جن میں سے چھ اوورز تو ایسے ہوتے ہیں جن میں بولرز اور فیلڈرز کے پاس کرنے کو کچھ زیادہ ہوتا نہیں۔
بات چھکوں، چوکوں کی ہو اور اس کے لیے استعمال کیے جانے والے بلوں (بیٹ) کی بات نہ کی جائے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ اب تو بہت سے سابق کرکٹرز جو میچز کے دوران کمینٹری کرتے ہیں اکثر بغیر زیادہ محنت کیے اونچے اونچے چھکوں کو دیکھ کر حیران ہی دکھائی دیتے ہیں۔
ان کمنٹیٹرز کو اکثر یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ’ہمارے زمانے میں ایسے بیٹس نہیں تھے، آج کل تو بلے باز ان بلوں سے جادو کرتے ہیں۔‘
بلوں کی بات کی جائے تو پاکستان اور پھر سیالکوٹ کا نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے۔ سیالکوٹ وہ مقام ہے جہاں دنیا بھر کے کھلاڑیوں کے لیے بلے بن کر جاتے رہے ہیں اور اب بھی جاتے ہیں۔
سیالکوٹ میں قومی اور بین الاقوامی کرکٹرز کے لیے ان کی مرضی کے مطابق اعلیٰ معیار کی لکڑی سے مخصوص مہارت کے ساتھ بلے تیار کیے جاتے ہیں۔
پنجاب کے اسی شہر میں بلے بنانے والی ایک کمپنی ایسی بھی ہے جو 1958 سے یہی کام کر رہی ہے اور ان کے بنائے گئے بلے چاہے ہارڈ بال کے ہوں یا ٹینس بال کے پورے ملک میں دکھائی دیتے ہیں۔
ہم بات کر رہے ہیں چراغ الدین عبدالرشید یعنی ’سی اے‘ کی۔
کئی انٹرنیشنل کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ ابھرتے ہوئے پاکستانی کھلاڑی بھی پی ایس ایل میں سی اے کے بنے بلے استعمال کرتے دکھائی دیں گے۔
ان میں اگر ’بڑے‘ ناموں کی بات کی جائے تو فخر زمان، شاداب خان اور صرف پریکٹس سیشن میں ’سو چھکے‘ لگانے والے آصف علی بھی سی اے کے بلے استعمال کرتے ہیں۔
سی اے کے مینیجر اعجاز کھوکھر کے مطابق بڑے کرکٹ پلیئرز کی خواہش اور ضرورت کے مطابق تیار کیے جانے والے ان بلوں کی لکڑی لندن سے درآمد کی جاتی ہے۔
بلوں کی تیاری
اعجاز کھوکھر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک مخصوص سائز کے ٹکڑوں میں لندن سے آنے والی اس لکڑی کو ایک خاص درجہ حرارت پر کمرے میں رکھ کر آگ سے گرم رکھا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بتاتے ہیں کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو لکڑی خشک ہو جائے اور دوسرا اس میں ضرورت کے مطابق نمی بھی برقرار رہے۔
بقول اعجاز: بلے تیار کرنے والے مخصوص کاریگر ہوتے ہیں جو ان لکڑی کے ٹکڑوں کو کٹائی اور چھلائی کے لیے مختلف مراحل سے گزارتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلے کا بلیڈ اور ہینڈل الگ الگ تیار کیے جاتے ہیں جنہیں فنشنگ کے بعد جوڑ دیا جاتا ہے۔
بلے تیار کرنے والے کاریگر ثاقب بٹ کہتے ہیں کہ انہیں فیکٹری انتظامیہ قومی ٹیم کے بلے بازوں کی خواہش بتا دیتی ہے، جس کے مطابق وہ بلا تیار کرتے ہیں۔
بلے کا وزن
بلوں کو ان تمام مراحل سے گزارنے کے بعد وزن کی باری آتی ہے۔
ہر بلے باز اپنے زیر استعمال بلوں کا وزن بھی خود ہی طے کرتا ہے۔ بعض بلے باز ہلکے اور باز وزنی بلے استعمال کرتے ہیں، جس کی وجوہات بھی الگ الگ بتائی جاتی ہیں۔
کچھ کا کہنا ہے کہ وزنی بلوں کو ہارڈ ہٹنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ہلکے بلے گراؤنڈ شاٹس کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
کرکٹرز اپنی کٹ بیگ میں دونوں ہی طرح کے بلے رکھتے ہیں۔
اعجاز کھوکھر کے مطابق کرکٹ بیٹ کا کم سے کم وزن 2.7 پاؤنڈ اور زیادہ سے زیادہ 3 پاؤنڈ ہوتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے جارحانہ بلے باز فخر زمان جو بلا استعمال کرتے ہیں اس کا وزن 2.7 پاؤنڈ ہوتا ہے۔
سٹیکرز
ویسے تو تمام بلے ایک ہی جیسے دکھائی دیتے ہیں مگر جو چیزیں انہیں الگ بناتی ہیں ان میں ایک اس کا وزن اور دوسرا ان پر لگے سٹیکرز ہوتے ہیں۔
لکڑی کی کٹائی، چھلائی، فٹنگ اور وزن کے بعد باری آتی ہے بلے پر لگائے جانے والے سٹیکرز کی۔
اعجاز کھوکھر کے مطابق ان تمام مراحل کے بعد بلے پر کمپنی کا سٹیکر لگایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جیسے سٹیکرز کرکٹرز کے بلوں پر لگائے جاتے ہیں، ویسے ہی سٹیکرز کے ساتھ ان بلوں کو مارکیٹ میں فروخت کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
قیمت
سی اے کمپنی کے مینیجر نے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے زیر استعمال بلوں کی قیمت خفیہ رکھتے ہوئے کہا کہ کھلاڑی اپنی ضرورت کے مطابق بیٹ لیتے ہیں، نہ کہ قیمت کے حساب سے۔
تاہم انہوں نے اپنی فیکٹری میں تیار ہونے والے بلوں کی قیمت کے حوالے سے بتایا کہ ان بلوں کی قیمت دس ہزار سے شروع ہو کر ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک ہے۔