ایک ہفتہ قبل میرے آبائی ملک ترکی کو صدی کے بدترین زلزلے کا سامنا کرنا پڑا جس میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے، دسیوں ہزار زخمی ہوئے اور 60 لاکھ سے زیادہ ترکی اور اس سے متصل ملک شام میں بے گھر ہوئے۔
اس قیامت خیز آفت کے بعد کئی ممالک مدد کو پہنچ گئے، کروڑوں ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا اور ملیا میٹ ہونے والے شہروں میں ریسکیو کے کاموں میں مدد کے لیے کارکنان بھیجے جس کے لیے میں بے حد شکر گزار ہوں۔
لیکن یہ بے نظیر تباہی اس خوفناک مستقبل کی صرف ایک جھلک ہے جس کا سامنا کرنا ابھی باقی ہے۔ گذشتہ ہفتے کے واقعات اس وقت بین الاقوامی برادری کے لیے ایک بیش میعاد ویک اپ کال ہے جب دنیا کو پہلے ہی موسمیاتی پناہ گزینوں کے بحران کا سامنا ہے اور ہم اس کی تیاری سے کوسوں دور ہیں۔
پچھلی دہائی میں عالمی سطح پر پناہ گزینوں کا بہاؤ دوگنا ہو گیا ہے اور 2050 تک ایک ارب سے زیادہ افراد ماحولیاتی آفات کے باعث بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
2008 کے بعد سے موسمیاتی تبدیلی خونریز جنگوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ لوگوں کو بے گھر کر چکی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے زیادہ تر پناہ گزینوں کا تعلق سب صحارا افریقہ اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقوں سے ہے۔ یہ خطہ پہلے ہی قدرتی آفات اور شدید خشک سالی سے دوچار ہے۔
کوپ 27 اور ڈیووس جیسے بین الاقوامی سربراہی اجلاس بارہا موسمیاتی پناہ گزینوں کے مسٔلے کو حل کرنے ناکام رہے ہیں۔ کوپ 27 اجلاس میں ’موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی نقل مکانی‘ محض ایک سائیڈ لائن سیشن تک محدود رہا اور ڈیووس ’کارپوریٹ لالچ‘ کی وجہ سے ارب پتیوں کے اوطاق میں بدل گیا۔
ایسے ممالک، جو موسمیاتی تبدیلی کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار سمجھے جاتے ہیں، میں رہنے والے تین ارب سے زیادہ افراد کے ساتھ ہم موسمیاتی پناہ گزینوں کے بحران کے وجود کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
بین الاقوامی قانون کے تحت موسمیاتی پناہ گزین تحفظ کے اہل نہیں ہیں۔ درحقیقت اس بات پر بھی دنیا کا اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ اس کا کون اہل ہے کیونکہ ماحولیاتی پناہ گزین 1951 کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کے تحت نہیں آتے جو صرف ان لوگوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے جو اپنی نسل، مذہب، قومیت، سیاسی رائے یا سماجی گروہ کی وجہ سے ہونے والے ظلم و ستم سے بھاگ رہے ہوں۔
ایسے میں جب اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی یو این ایچ سی آر ماحولیاتی پناہ گزینوں کے لیے ان کے آبائی ممالک میں درپیش خطرات کو تسلیم کرتی ہے، بین الاقوامی قانون ترقی یافتہ ممالک کو انہیں ملک بدر کرنے سے روکنے میں ناکام رہتا ہے اور بغیر کسی قانونی حیثیت کے موسمیاتی پناہ گزینوں کے پاس نقل مکانی کے کوئی قانونی اختیارات بھی نہیں ہیں۔
دوسری جانب پالیسی ساز اس سب سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
زلزلے کے چند دن بعد یورپی یونین کے مائیگریشن اجلاس کو انتہائی دائیں بازو کی طرف سے ہائی جیک کر لیا گیا جس میں امیگریشن کے سخت قوانین اور مزید سرحدی باڑ لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔
موسمیاتی تباہی کے نتیجے میں تاریخ کی سب سے بڑی ممکنہ نقل مکانی سے پہلے ہی امیگریشن کو ایک سیاسی ہتھیار بنا لیا گیا ہے جس کی خصوصیات ’ٹرمپسٹ سٹریٹیجیز‘ جیسی ہیں۔
عالمی پناہ گزین، جن میں سے زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک سے آئے ہیں، کے لیے موجودہ ماحول تیزی سے مخالف ہو رہا ہے۔ بہت سے یورپی ان پر مکمل پابندی عائد کرنے کی امید کر رہے ہیں۔ لہٰذا ہمارے معاشروں کو آنے والی چیزوں کے لیے تیار کرنے میں مشترکہ انسانیت کی اقدار کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہوگا۔
ماحولیاتی تباہی کے تناظر میں نقل مکانی کے حوالے سے دنیا کے نقطہ نظر کے لیے قوی اصلاحات کی ضرورت ہے یعنی ایک ایسی پالیسی جو ممکنہ طور پر یوکرین کے پناہ گزینوں کے عارضی تحفظ کی طرح کا ماڈل بن سکتا ہو۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صرف پالیسی ساز ہی پناہ گزینوں کے خلاف عوام کی نفرت کو ختم نہیں کر سکتے اس لیے موسمیاتی نقل مکانی کی بحث میں سول سوسائٹی کے رہنماؤں کو شامل کرنا اہم ہو جاتا ہے۔
مذہبی رہنماؤں سمیت سول سوسائٹی موسمیاتی پناہ گزینوں کے حق میں عوامی حمایت حاصل کرنے میں اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مذہبی رہنماؤں کے ایک گروپ نے حال ہی میں یورپی کمیشن کے ساتھ مل کر یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ اپنی اخلاقی اقدار کی توثیق کرے اور یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والی یکجہتی کی تحریک کو آگے بڑھائے۔
ایک اور مثال دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری اسلامی تنظیم ’مسلم ورلڈ لیگ‘ (ایم ڈبلیو ایل) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ کی ہے جنہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں کی مدد کے لیے عوام کو متحرک کرنے میں عقیدے جیسے اخلاقی فریم ورک کو بروئے کار لانے کو اپنا مشن بنایا ہے۔
ایک اہم عالمی بین المذاہب اتحاد ’فیتھ فار آور پلینیٹ‘ (ایف ایف او پی) کے قیام سے مسلم ورلڈ لیگ موسمیاتی جنگ میں بین المذاہب حل اور مشترکہ اخلاقی اقدار کو مؤثر طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔
مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے پناہ گزین مخالف جذبات کے خلاف لڑتے ہوئے اس طرح کے اقدامات سماجی ہم آہنگی کو محفوظ بنانے اور ہمارے دور کے سب سے بڑے انسانی بحران سے پہلے لچک پیدا کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔
کچھ حکومتوں نے موسمیاتی بحران کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے ویزا کی نئی گیٹیگریز کا نفاذ شروع کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر مئی میں ارجنٹینا نے میکسیکو، وسطی امریکہ، اور غرب الہند کے موسمیاتی پناہ گزینوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک خصوصی تین سالہ ویزوں کا اجرا کیا اور یہ اقدام ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے لیے ایک نئے مزید لچکدار نقطہ نظر کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید برآں مصنوعی ذہانت میں بڑے پیمانے پر صلاحیت موجود ہے جو اس سے پہلے استعمال نہیں کی گئی اور اسے حکومتیں موسمیاتی آفات سے پہلے پیش گوئی کرنے اور اس کی روک تھام کے طریقے کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔
اس کا استعمال یہ پیش گوئی کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے کہ نئے پناہ گزین پچھلے پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے ماڈلز کے ڈیٹا کی بنیاد پر زیادہ آسانی سے مربوط ہونے کے قابل ہیں جیسا کہ سٹینفورڈ یونیورسٹی کی امیگریشن پالیسی لیب کے جیو میچ جیسے پروگراموں کے ذریعے ایسا پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
اور آخر میں مغربی ممالک اپنی عمر رسیدہ آبادی کے ساتھ اضافی لیبر فورس کے بغیر مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔
2050 تک شمالی امریکہ اور یورپ میں 30 کروڑ افراد ریٹائرمنٹ کی عمر سے زیادہ میں پہنچ چکے ہوں گے۔ پچھلے سال یورپ نے پہلے ہی 2015 کے پناہ گزینوں کے بحران کے بعد سب سے زیادہ تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو براعظم میں داخل ہوتے دیکھا۔ اس تعداد میں یورپ بھر میں داخل ہونے والے تقریباً 80 لاکھ یوکرینی پناہ گزین شامل نہیں ہیں جو ایک سال قبل روس کے حملے کے بعد اپنے گھروں سے فرار ہوئے تھے۔
اس وقت 10 لاکھ تارکین وطن کی وجہ سے ایک بے مثال سیاسی اور انسانی بحران پیدا ہوا تھا۔ اب ہمیں ایک ہزار گنا بدتر بحران کا سامنا کرنے کا خطرہ ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اس احساس کے لیے بیدار ہو۔
ابراہیم اوزدیمیر اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے مشیر ہیں۔
© The Independent