سارا ہال تالیاں بجا رہا تھا اور میری آنکھوں میں آنسو تھے۔
کوئی خاص روندو بچہ نئیں ہوں میں، پبلک مقامات پر تو بالکل نہیں، لیکن آج یہ بھی ہو گیا۔
بےنظیر بھٹو کی آمد کا منظر تھا۔
سٹیج پر ان کی آمد سے پہلے گانا چلتا ہے، دِلے تیر بِجا ۔۔۔ الے، میرے گھٹنے تھرکنے شروع ہو جاتے ہیں۔
اس منظر سے پہلے میں آدھا سویا، آدھا جاگا بیٹھا تھا۔ یہ گانا بجنا شروع ہوا ہے اور میں چستی محسوس کرنے لگا۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا اس کے بعد جو ہوا۔
سٹیج پہ وہ اداکار آئیں جو بے نظیر بھٹو کا رول نبھا رہی تھیں۔ ان کے آنے پر ایک دم گانا بند ہو گیا اور ساتھی اداکاروں نے کچھ کہا جس پہ ہال تالیاں بجانے لگا۔
تو پھر سارا ہال تالیاں بجا رہا تھا اور میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ عجیب سی کیفیت تھی۔ آنسوؤں سے عین پہلے بے نظیر کے نمودار ہونے پر میرے رونگٹے کھڑے ہوئے، پھر لیاقت باغ والا دن یاد آیا اور جس وقت وہ سٹیج پہ کھڑی تھیں، میں رو رہا تھا۔
اب ڈرامہ چھوڑ کے میں یہ سوچنے لگا کہ باوجود خود کو مکمل ’غیر سیاسی‘ رکھنے کے، میں اب بھی کیا اندر سے ایک ’پیپلیا‘ ہوں؟ جیالا ہوں؟
میرے لیے خود اپنا یہ ردعمل بالکل غیر متوقع تھا۔ بے نظیر کو پہلی بار تب دیکھا تھا جب وہ ملتان آئیں اور ان کا جلوس پائلٹ سکول کے سامنے سے گزرا اور میں کسی بڑے کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا، آخری بار پھر ٹی وی پہ ان کا بند تابوت دیکھا۔
بہت ساری کوششوں کے بعد میں کوئی دو ایک سال سے مکمل طور پہ سیاست کو بر پشم قلندر رکھ چکا تھا۔ اتنی شدید مہنگائی میں جمہوریت نرا انتقام ہی لگ سکتی ہے لیکن میں پھر رو کیوں دیا؟ یہ بات مجھے حیران کیے ہوئے ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا!
آرٹیکل 25 کے نام سے یہ تھیٹر دیکھنے میں 18 فروری 2023 کی رات جاتا ہوں اور جب واپسی ہوتی ہے تو خود کو الگ ہی چہ کنم میں پاتا ہوں۔
بہت گہرا سیاسی طنز لیے یہ ڈرامہ حسن معراج نے لکھا اور شدید طاقتور فقروں کو ڈائیلاگ کی صورت کہلوایا۔ میرے ساتھ بیٹھے ایک صاحب اپنے ہمراہ آئے دوست سے کہہ رہے تھے کہ ’بعض جملے پوری کتاب ہیں اس ڈرامے کے اندر۔‘
ایوب خان، مشرف، ضیا، بے نظیر، مریم نواز، فاطمہ جناح، عاصمہ جہانگیر، ماما قدیر سمیت قاسم علی شاہ اور خلیل الرحمٰن قمر بھی اس ڈرامے کا ایک کردار تھے۔
میں جس وقت تھیٹر میں بیٹھا تو سامنے قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے نام سے ایک پوڈیم موجود تھا اور اس پر کوٹ پتلون پہنے ایک صاحب کھڑے تھے۔
ڈرامہ شروع نہیں ہوا تھا لیکن یہ اتنا بڑا سسپنس تھا کہ پردہ اٹھنے سے پہلے، پورے بیس منٹ تک آس پاس کی ہر نشست پہ یہی بات ہو رہی تھی کہ ’یہ ڈرامہ کیا انہوں نے سپانسر کیا ہے؟‘ اور بھی ڈیڑھ سو قسم کے طنزیہ فقرے اچھل رہے تھے۔
مشرف اور خلیل الرحمٰن قمر کی اینٹری بہت زبردست تھی۔ ایک کردار نشئی تھا، وہ سمجھ لیں ڈرامے کی جان تھا اور پھر سُریلا بھی تھا نام خدا، اینڈ تک چھایا رہا۔
جو پنچ لائن اب تک یاد ہے، وہ یہ تھی کہ خاتون کردار نے کہا مرد ہمیں خواب دیکھنے سے بھی روکتے ہیں تو مرد بولا ’ہم نے کب روکا ہے، ہم تو کہتے ہیں کہ دیکھو، بس ہماری مرضی کے خواب دیکھو۔‘
حسن معراج نے بہت اچھا کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو سٹیج نہیں کیا۔ وہ خود ان کے حلقے میں بعض لوگوں کے لیے ریڈ لائین ہونا تھی۔ بلوچ پنجابی تنازعے کو تین چار ڈائیلاگز میں نبھایا گیا، یہ موضوع اتنی سہولت سے لپیٹا جا سکتا تو کیا ہی کہنے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوچا یہ تھا کہ پہلے گھنٹے بعد نکل جاؤں گا، دو تین کام پھنسے ہوئے تھے۔ آدھے گھنٹے بعد اگلا ایک گھنٹہ دماغ میں بڑھایا اور پھر جب واپس جانے کے لیے اٹھا تو ڈرامہ ختم ہو چکا تھا لیکن اوپر سے نیچے تک سیڑھیوں پر لوگ ہی لوگ تھے۔
تو کیا میں ایک ’جیالا‘ ہوں؟
میرا دماغ کہتا ہے کہ تم بچپن سے ان لوگوں کے قریب رہے جو پیپلز پارٹی سے تھے، یہ گانے تمہارا نوسٹیلجیا واپس لاتے ہیں، تمہیں انہی دنوں میں واپس لے جاتے ہیں، تمہیں ذوالفقار علی بھٹو کی ’کرشماتی شخصیت‘ پسند تھی، تمہیں بے نظیر کا سیاسی قد یاد ہے، تم بس اُن کی بے بس موت پہ روئے اور تم ایک جیالے نہیں ہو۔
دل یہ کہتا ہے کہ تُو نے پورے کالم میں بے نظیر لکھا، ’بی بی‘ کیوں نہیں لکھا؟ جو تُو لکھنا چاہتا تھا۔ تُو نے کہیں ’شہید‘ کا لفظ کیوں نہیں استعمال کیا؟ غریب پاکستانی ایک یہی تاج تو پہنا سکتا ہے اپنے بیش قیمت ترین نقصان کو۔۔۔ مشرف کی موت پہ بلاول بھٹو نے جب اپنی ماں کی تصویر لگائی تو اس وقت تُو نے دل کیوں بنایا؟ تُو آخر ایک اداکار کو سٹیج پر دیکھ کے ہی رو کیوں پڑا جب کہ تجھے پتہ تھا تُو ایک ڈرامہ ہی تو دیکھ رہا ہے؟
ان دونوں کی لڑائی سے الگ ہو کر میرا ذاتی خیال ہے کہ بے نظیر بھٹو کے آخری دن تک میں جیالا تھا، اب محض ایک صحافی ہوں۔