عبدالقیوم گذشتہ 32 سال سے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں قیمتی پتھروں کی تجارت کرتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہاں کچھ بے نام پتھر بھی پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’دنیا کی لیبارٹریوں نے جتنے بھی پتھروں کو الگ نام دیے ہیں، وہ سب یہاں افغانستان میں موجود ہیں لیکن یہاں کچھ ایسے پتھر بھی ہیں جن کو ابھی تک دنیا کی کسی لیبارٹری نے نام بھی نہیں دیا۔‘
ان کے مطابق: ’یہ الگ بات ہے کہ اس کے لیے کام نہیں ہوا ہے۔ یہاں یاقوت ہیں جسے روبی کہا جاتا ہے، سیفائر ہیں، لاجورد ہیں جو نیم قیمتی پتھر کے زمرے میں آتے ہیں۔ زمرد بھی ہیں جو پنجشیر کے علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ یاقوت ہیں جو جگدلک میں ہیں۔ ٹرملین بھی ہیں، جسے ہم بیروج کہتے ہیں۔‘
عبدالقیوم کہتے ہیں کہ ’یہ قیمتی پتھر یعنی جواہرات صرف جیولری جیسے لاکٹس، بالیوں اور انگوٹھیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’یہ قیمتی پتھر افغانستان کے ہر صوبےاور ہر علاقے میں پائے جاتے ہیں لیکن فی الحال زمرد افغانستان کے تین صوبوں میں پایا جاتا ہے جن میں پنجشیر، بدخشاں اور نورستان شامل ہیں جہاں سے انہیں نکالنے کا کام ہو رہا ہے۔‘
ان پتھروں پر کی جانے والی محنت کے حوالے سے عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ ’افغانستان کے قیمتی پتھر زیادہ تر ان ممالک کو ایکسپورٹ ہوتے ہیں جہاں اس پتھر کے کاری گر زیادہ ہیں۔ جو ان پتھروں کو تیار کرتے ہیں، انہیں حکاکی کہا جاتا ہے۔ ان ممالک میں انڈیا اور تھائی لینڈ شامل ہیں جہاں دنیا کے کونے کونے سے پتھر آتے ہیں، جو اس کام میں پانچ سے چھ سو سال کا تجربہ رکھتے ہیں جہاں سے یہ جیولری پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔‘
عبدالقیوم کو افسوس ہے کہ افغانستان میں پتھر نکالنے کے لیے ابھی تک جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاتا اور بارود کے استعمال پر ہی انحصار کیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق: ’جب تک غیرملکی افغانستان میں تھے تو انڈیا سے ہیرے اور زیمبیا سے کچھ زمرد یہاں آتے تھے کیوں کہ افغانستان میں قیمتی پتھروں کے کاری گر بہت کم تھے اور پتھروں کی مانگ زیادہ تھی، اس لیے باہر سے پتھر منگوائے جاتے تھے۔‘