انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔
کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم کو پیر اور منگل کی درمیانی شب اسلام آباد کے مضافاتی علاقے برما ٹاؤن میں ’نامعلوم موٹر سائیکل سواروں‘ نے انتہائی قریب سے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
بشیر احمد کی نمازہ جنازہ اسلام آباد میں ادا کی گئی جس کی امامت کشمیری عسکری تنظیموں کے اتحاد ’متحدہ جہاد کونسل‘ کے سربراہ سید صلاح الدین نے کی اور ایک اندازے کے مطابق اس میں چار سے پانچ ہزار لوگوں نے شرکت کی، جن میں ماضی میں کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے نمایاں افراد، حزب المجاہدین کی چوٹی کی قیادت، پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی کی نمایاں شخصیات اور انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے لوگ تھے۔
اس اجتماع میں شامل لوگوں نے وہ تمام نعرے دہرائے جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے جنازوں میں لگائے جاتے ہیں۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر شمشیر خان سمیت دیگر کئی لوگوں نے اپنی تقریروں میں جموں کشمیر میں ’آزادی کی جدوجہد‘ کو تیز کرنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
کشمیر کی عسکری تحریک کے حلقوں میں بشیر احمد کو امتیاز عالم ہی کے نام جانا جاتا تھا اور بظاہر ان کا قتل ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ معلوم ہوتا ہے کیوں کہ ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق بشیر احمد کی کسی سے کوئی ذاتی یا کاروباری دشمنی نہیں تھی۔
قتل کے اس واقعے کی ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں اسلام آباد کے تھانہ کھنہ میں ’دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں‘ کے خلاف درج کی گئی ہے، تاہم پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات یا پیش رفت کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ایف آئی آر میں بشیر احمد ولد سکندر نامی شخص کو ’مذہبی شخصیت‘ بتایا گیا ہے اور ان کے قتل کا ممکنہ مقصد ’مذہبی فرقہ واریت اور دہشت گردی پھیلانا‘ قرار دی گئی ہے۔
بشیر احمد کے قتل کی خبر پاکستانی میڈیا میں کوئی جگہ حاصل نہ کر سکی البتہ انڈین میڈیا نے اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ اس کی بنیادی وجہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری عسکری تحریک کے دوران انڈین سکیورٹی فورسز پر مختلف حملوں میں بشیر احمد کا مبینہ کردار ہے۔
بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم کون تھے؟
60 سالہ بشیر احمد کو حزب المجاہدین کا چوٹی کا کمانڈر اور سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کا انتہائی قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے اور وہ اس عسکری تنظیم کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔
وہ حزب المجاہدین کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز فورم ’حزب سپریم کونسل‘ کے رکن اور کئی دوسرے اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود ذرائع ابلاغ میں زیادہ نمایاں نہیں ہوئے اور پس پردہ رہ کر کام کرتے رہے۔
ماضی میں حزب المجاہدین کا حصہ رہنے والے ایک کشمیری صحافی کے بقول بشیر احمد کشمیر میں ہونے والی زیادہ تر عسکری کارروائیوں کی منصوبہ بندی، عسکریت پسندوں کی تربیت اور انہیں لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے ذمہ دار رہے، اسی لیے انڈین میڈیا انہیں حزب المجاہدین کا ’لانچنگ کمانڈر‘ قرار دے رہا ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے علاقے کرال پورہ میں پیدا ہونے والے بشیر احمد 80 کی دہائی کے آخر میں شروع ہونے والی مسلح تحریک میں شامل ہوئے۔ 1990 میں کپواڑہ کے علاقے ظفرکھنی میں انڈین سکیورٹی فورس کے ساتھ ایک ’جھڑپ‘ میں زخمی ہو کر گرفتار ہوئے اور دو سال تک جیل میں بھی رہے۔ جیل سے رہا ہوتے ہی وہ لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آ گئے۔
ماضی میں ان کے قریبی ساتھی رہنے والے ایک سابق عسکریت پسند نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عسکری تحریک کے ساتھ تعلق کی وجہ سے بشیر احمد کے خاندان کو کئی مرتبہ کریک ڈاؤن کا سامنا رہا اور اس دوران انڈین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ان کے والد اور ایک بھائی سمیت خاندان کے کئی لوگ مارے گئے۔
ایک ایسے ہی سرچ آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے ان کا آبائی گھر بھی جلا دیا۔ بشیر احمد کی اہلیہ، بچے اور ان کا ایک بھائی بھی لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر آگئے تھے اور ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بشیر احمد کو سخت گیر رویے کا حامل کمانڈر قرار دیا جاتا تھا۔ ان کا نام پہلی مرتبہ سوشل میڈیا پر تین سال قبل اس وقت سامنے آیا جب پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی جانب سے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیا گیا۔اس کے بعد بشیر احمد سوشل میڈیا بشمول فیس بک پر اور مختلف وٹس ایپ گروپوں میں سرگرم رہے اور وقتاً فوقتاً پاکستان کی کشمیر پالیسی میں مبینہ تبدیلی پر تنقید کرتے رہے۔
ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق اس تنقید پر انہیں بعض مواقع پر ’تنبیہ‘ بھی کی گئی تاہم سوشل میڈیا پر بشیر کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
لیکن پاکستان کی حکومت کی طرف سے بارہا یہ دہرایا جاتا رہا ہے کہ حکومت کی کشمیر سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
بشیر احمد کے قریبی ساتھی اور حزب المجاہدین کے سابق عسکریت پسند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جو سید صلاح الدین سے بھی اختلاف کر سکتے تھے۔
وہ کہتے ہیں: ’حزب سپریم کونسل میں جہاں سبھی لوگ ’پیر صاحب‘ کی ہاں میں ہاں ملاتے، امتیاز بھائی برملا ان سے اختلاف کرتے، ان پر تنقید کرتے اور بعض اوقات تو انہیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کردیتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’امتیاز عالم نے اپنے آپ کو کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ ان کے خاندان کے کئی لوگ اس تحریک میں مارے گئے مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہم جیسے کئی لوگ عسکریت پسندی سے علیحدگی اختیار کر چکے، امتیاز عالم مسلسل اس تحریک سے جڑے رہے اور وہ اسی کو تنازع کشمیر کا واحد حل سمجھتے تھے۔‘
حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی کا ردعمل
بشیر احمد کے قتل کے بعد حزب المجاہدین نے انہیں ایک ’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ شخص قرار دیا جو عسکریت پسندوں کی ’نہ صرف عسکری بلکہ ذہنی اور فکری تربیت‘ کرتے تھے۔
میڈیا کو جاری کیے گئے سید صلاح الدین کے ایک بیان میں بشیر احمد کے ’مشن‘ کو جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا، تاہم حزب المجاہدین یا متحدہ جہاد کونسل کی طرف سے ابھی تک بشیر احمد کی موت کی واضح ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی گئی۔
سید صلاح الدین نے اس قتل کو ایک ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیا ہے جس کے نتیجے میں ان کے بقول ایک وقتی کامیابی تو حاصل کی گئی مگر اس کے نتیجے میں ’ہزاروں امتیاز عالم‘ پیدا ہوں گے۔
البتہ جماعت اسلامی نے پاکستان کے دارالحکومت میں ایک کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی موت کو ’دشمن کی تخریب کاری‘ اور ’پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ‘ قرار دے کر اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔