سپریم کورٹ نے بدھ کو ایک از خود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آرٹیکل224 کے تحت 90 دنوں میں الیکشن کروائے جائیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا، جو دو کے مقابلے تین کی اکثریت سے ہوا۔ فیصلے میں دو ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان نے اختلافی نوٹ لکھا۔
عدالت کا کمرہ نمبر ایک، جہاں یہ فیصلہ سنایا گیا، وکلا اور سیاسی رہنماؤں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق صورت حال پر 22 فروری کو ازخود نوٹس لیا اور عدالت نے منگل کو(آج) فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تھا۔
فیصلے کے مطابق آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے اور پارلیمانی جمہوریت آئین کا salient feature ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں۔ پنجاب اسمبلی 14 جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی۔ ’پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی۔
’اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہ کرے تو صدر مملکت تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر سے مشاورت کا پابند ہے، خیبر پختونخوا میں انتخابات کے اعلان کا اختیار گورنر کا ہے۔ صدر مملکت کی جانب سے دی گئی تاریخ پنجاب پر لاگو ہوگی۔ الیکشن کمیشن فوری صدر مملکت سے مشاورت کرے۔
سپریم کورٹ نے خیبر پختونخوا میں صدر کی دی گئی تاریخ کا حکم بھی کالعدم قرار دیا۔
فیصلے کے مطابق نو اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جا سکتی ہے اور یہ کہ گورنر خیبر پختونخوا نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وفاقی حکومت سمیت تمام سٹیک ہولڈرز الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں لہٰذا 90 روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
اختلافی نوٹ کے مطابق ہائی کورٹس تین روز کے اندر کیس کا فیصلہ کریں، پشاور اور لاہور ہائیکورٹ تین دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں۔ اختلافی نوٹ میں جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹس سے اتفاق کیا گیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے دو صوبوں میں الیکشن کے حوالے سے حکمران اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کا آج مشاورتی اجلاس طلب کیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک نیوز چینل سے گفتگو میں کہا کہ وہ کابینہ میں مشاورت ہونے تک فیصلے پر تبصرہ نہیں کریں گے لیکن بطور وکیل ان کے ذاتی خیال میں یہسپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
انہوں نے کہا تین ججز نے ان درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیا جبکہ دو ججز نے رضاکارانہ طور پر نو رکنی بینچ سے خود کو علیحدہ کیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے خود کو نو رکنی بینچ سے علیحدہ نہیں کیا۔
ان کے مطابق وہ اختلافی نوٹ لکھنے کے بعد بھی بینچ میں آ کر بیٹھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا اور انھوں نے یہ درخواستیں مسترد کی ہیں۔
آج مزید دو ججز نے بھی یہ درخواستیں مسترد کی ہیں اور یوں اب پاناما مقدمے کی طرح پہلے دو ججز کے اختلافی نوٹ کو بھی ان دو ججز کے اختلافی نوٹ کے ساتھ ملا دیا جائے گا جس سے یہ اکثریتی فیصلہ بن گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر لکھا کہ فیصلے سے آئین کی فتح ہوئی ہے۔
’سپریم کورٹ کے واضع احکامات آ گئے ہیں۔ پنجاب کے انتخابات کی تاریخ صدر مملکت دیں گے جبکہ خیبر پختونخوا کے گورنر کو فوراً تاریخ دینے کا پابند کردیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’جن جج صاحبان نے اختلاف کیا وہ بھی الیکشن 90 دن کے اندر کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔‘
فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سابق وفاقی وزیر شیخ رشید نے کہا کہ یہ فیصلہ آئین، قانون اور عوام کی فتح ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام الیکشن کی تیاری کرے اور ’دونوں صوبوں میں عمران خان کی حکومت آنے والی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ازخود نوٹس پر ابتدا میں نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا لیکن حکمران اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی جانب سے دو ججوں جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے ناموں پر اعتراض سامنے آئے تھا۔
اس کے علاوہ دو ججوں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بینچ کی تشکیل سے متعلق سوالات اٹھائے تھے، جس کے بعد یہ بینچ تحلیل ہو گیا۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں باقی پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے مزید دو سماعتیں کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ازخود نوٹس پر سماعت کے دوران فل کورٹ بینچ کی تشکیل کے مطالبات بھی سامنے آتے رہے لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی کا ’جیل بھرو تحریک‘ معطل کرنے کا فیصلہ
ہم عدالتِ عظمیٰ کےفیصلےکا خیرمقدم کرتےہیں۔آئین کا تحفظ SC کا فرض تھا اور معززججز نےآج اپنےفیصلےکےذریعےیہ فرض نہایت بہادری سےنبھایاہے۔یہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی پر تصدیق کی ایک مہر ہے۔ہم اپنی جیل بھروتحریک معطل کررہےہیں اور KP اور پنجاب میں انتخابی مہم کیجانب بڑھ رہےہیں۔
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) March 1, 2023
پاکستان تیریک انصاف کے چیئرمین نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ’جیل بھرو تحریک‘ کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور اس کے بعد اپنی تحریک کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اس تحریک کو کب یا کس صورت میں دوبارہ فعال کریں گے۔