امریکی سپریم کورٹ آئندہ منگل کو گونزالس بنام گوگل تاریخی کیس کی سماعت کرے گی۔
2015 میں پیرس میں نام نہاد داعش گروپ کے حملے میں ہلاک ہونے والی کیلیفورنیا کے کالج کی طالبہ نوہیمی گونزالس کے خاندان نے گوگل کی ملکیتی کمپنی یوٹیوب پر اپنے الگورتھم کے ذریعے عالمی دہشت گرد گروپ کی ویڈیوز کی تشہیر کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ یوٹیوب کے الگورتھم، جو صارفین کے لیے ٹارگیٹڈ ریکمنڈیشنز یا دوسرے لفظوں میں اگلی ویڈیو دیکھنے کے لیے تجویز پیش کرتا ہے، کو کمیونیکیشن ڈیسنسی ایکٹ سیکشن 230 کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
مجھے اس بات کا ذاتی تجربہ ہے کہ یوٹیوب اور فیس بک کی جانب سے سیٹ کیے گئے الگورتھم امپلیفیکیشن نے لوگوں کو کس طرح نقصان پہنچایا ہے۔
26 اگست 2015 کی صبح میری بیٹی ایلیسن پارکر، جو پیشہ ور صحافی تھیں، کو ورجینیا کے شہر مونیٹا میں ایک لائیو انٹرویو کے دوران گو پرو کیمرہ پہنے ہوئے ایک ناراض سابق رپورٹر نے ان کے کیمرہ مین ایڈم وارڈ سمیت گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
حملہ آور نے اس واقعے کی فوٹیج آن لائن پوسٹ کی جس میں دکھایا گیا کہ کیسے وہ اپنے شکار کے قریب آتا ہے، کم از کم آٹھ گولیاں چلاتا ہے اور پھر ایلیسن کا پیچھا کرتا ہے جب وہ بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں۔
میں نے کبھی یہ ویڈیو نہیں دیکھی اور نہ ہی دیکھوں گا۔ اس وقت میرا ایک پبلک یو ٹیوب اکاؤنٹ تھا جس میں ایک پیشہ ور اداکار کے طور پر میرے پچھلے کام کی ویڈیوز موجود تھیں۔
میری بیٹی کے قتل کے بعد کے گھنٹوں، دنوں، ہفتوں اور سالوں کے دوران میں اس سائٹ پر سازشی نظریات رکھنے والوں اور دھوکہ بازوں کی جانب سے بھیجے گئے دھمکی آمیز اور پریشان کن پیغامات سے الجھا رہا۔
اس کے بعد انہوں نے یوٹیوب، فیس بک اور انسٹاگرام پر اذیت پسند تفریح کے لیے ایلیسن کے قتل کی لائیو فوٹیج پوسٹ کرنا شروع کیں اور دعویٰ کیا کہ شوٹنگ جان بوجھ کر کرائی گئی تھی اور مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں پیسے لے کر ایلیسن کے والد ہونے کی اداکاری کر رہا ہوں۔
برسوں سے ایلیسن کی موت کے لمحات کی یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کر رہی ہیں۔ نہ صرف ان ویڈیوز کو مزید المناک بنانے کے لیے ایڈٹنگ کی گئی بلکہ اس سے بھی بدتر یہ کہ ان پلیٹ فارمز نے ایلیسن کے قتل کی مزید جھوٹی ویڈیوز کی ریکمنڈیشنز پیش کرکے اس بیمار بھوک کو مزید بھڑکایا۔
ایسا لگتا تھا کہ صارف جتنا زیادہ دیکھے گا اتنا ہی زیادہ ان پلیٹ فارمز نے انہیں ایسی مزید تجاویز پیش کرنی ہوں گی۔
لوگوں کے قتل ہونے کی تصویر کشی اور سفاکیت کو بڑھانے اور تفریح کے لیے ان مرتے ہوئے افراد کے آخری لمحات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ پلیٹ فارمز خود اپنی ہی سروس کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پلیٹ فارمز پر پرتشدد مواد کی اجازت نہیں ہے اور یہ کہ وہ اپنی سائٹس پر ان پرتشدد اور پریشان کن ویڈیوز کو روکتے ہیں۔
ان ویڈیوز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو بھی پولیسنگ کی ضرورت ہے جن کو اپنے بدترین لمحات کا بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ جب متاثرین ان ویڈیوز رپورٹ کرنے کے لیے پیچیدہ طویل عمل سے گزرتے ہیں تو بھی یہ پلیٹ فارمز ان کو ہٹانے میں ناکام رہتے ہیں۔
آن لائن مسائل کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’کولیشن فار اے سیفر ویب‘ سے وابستہ ایرک فینبرگ، جنہوں نے سینکڑوں ویڈیوز کو فلیگ کیا اور میڈیا اور قانون سازوں کے ساتھ ان کے لنکس شیئر کیے ہیں، کہتے ہیں کہ اس قتل کی ویڈیوز جو مذکورہ اموات کے دن ہی اپ لوڈ کی گئی تھیں، بار بار رپورٹ کرنے کے بعد بھی کئی سالوں تک سائٹس پر موجود رہیں۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ یہ پلیٹ فارم مؤثر طریقے سے پولیسنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اپنے مالی فائدہ کے لیے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
فینبرگ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ سیکشن 230 ’بگ ٹیک‘ (بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں) کو تحفظ فراہم کرتا ہے جب کہ صارفین کو ایسی صنعت میں قانونی چارہ جوئی کرنے کی اجازت نہیں دیتا جن پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ایلیسن کے قتل جیسی ویڈیوز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ان پلیٹ فارمز پر بے شمار دوسرے لوگ موجود ہیں جو لوگوں کی موت کے لمحات کی عکاسی کرتے ہیں، جھوٹ کو آگے بڑھاتے ہیں اور متاثرین کے خاندانوں کو ہراساں کرنے پر اکساتے ہیں۔
ان ویڈیوز میں فائرنگ کی ہوبہو فوٹیج، لاشیں، خود کشی کرنے والے افراد، چھرا گھونپنے اور خطرناک سازشی جھوٹ سب شامل ہیں۔
یہ متاثرین کسی نہ کسی کے پیارے تھے اور وہ موت کے بعد بھی گوگل اور فیس بک پر ہونے والے اس استحصال کے مستحق نہیں تھے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی لا سینٹر کی مدد سے میں نے گوگل کے خلاف 2020 میں ایف ٹی سی اور 2021 میں فیس بک کی ملکیتی کمپنی میٹا کے خلاف ان کی اپنی سروس کی شرائط کی خلاف ورزی کی شکایت درج کرائی تھی۔
ان شکایات کی بازگشت فیس بک کی مخبر فرانسس ہوگن کی کانگریس میں دی گئی گواہی میں بھی سنائی دی۔ افسوس کی بات ہے کہ ایف ٹی سی کسی بھی درست شکایت کا جواب دینے میں ناکام رہا ہے۔
لامتناہی سماعتوں کے ساتھ جہاں مبینہ بدانتظامی کو بے نقاب کیا گیا جیسا کہ فرانسس ہوگن کا کہنا ہے کہ غیر موثر کانگریس اس حوالے سے کام کرنے میں ناکام رہی ہے غالباً یہ ہر جگہ موجود اور طاقتور ٹیک لابیسٹس کے ہاتھوں مفلوج ہے۔
ان لامتناہی سماعتوں میں سے ایک میں، میں نے 2019 میں سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے سامنے گواہی دی۔ اپنی گواہی کے اختتام پر میں نے ممبران سے درخواست کی کہ وہ گوگل کے احتساب کے لیے عدالت میں میری تاریخ مقرر کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹر ٹیڈ کروز نے کہا کہ اگر ’بلاک بسٹر‘ پلیٹ فارم نے ان دنوں میں مجھے ایلیسن کے قتل کی ویڈیو بھیجی ہوتی تو میں ان کی ہر چیز کے خلاف مقدمہ کر سکتا ہوں جن پر ان کی ملکیت ہے۔
میرا جواب تھا: ’ایسا کرنے میں میری مدد کریں سینیٹر۔‘
یہ تقریباً چار سال پہلے کی بات ہے اور ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس میں ایف ٹی سی کی مجرمانہ خاموشی بھی شامل کریں اور اب یہ امریکی سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ اس پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔
اس کا فیصلہ انٹرنیٹ پر ایک اہم اثر ڈال سکتا ہے۔ گوگل، میٹا اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اگر عدالت سیکشن 230 کو نمایاں طور پر محدود کرتی ہے تو یہ شق، جو ان کمپنیوں کو کسی بھی ذمہ داری سے مکمل استثنیٰ دیتی ہے، تو یہ کچھ سائٹس پر قابل اعتراض مواد کے پھیلاؤ اور دوسری سائٹس کے مواد کو ہٹانے کا باعث بن سکتی ہے۔
سات سال سے زائد عرصے سے اور ان کی جھوٹی تردیدوں کے باوجود گوگل اور فیس بک نے میری بیٹی کی زندگی کی یاد کو داغ دار کر دیا ہے۔
جب تک سپریم کورٹ ان پلیٹ فارمز کو حاصل استثنیٰ کو ختم نہیں کرتی، وہ ان لوگوں کی یادوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے جنہیں ہم نے ان کے منافع اور تفریح کے لیے کھو دیا ہے۔ اگر اس کام کو انجام دینے کے لیے امریکی سپریم کورٹ سے غیر معمولی اتحاد کی ضرورت ہے، تو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
میں ایلیسن کی موت کے بعد سے یہ جنگ لڑ رہا ہوں اور میں اس وقت تک نہیں رکوں گا جب تک مجھے انصاف نہیں مل جاتا۔
© The Independent