حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کی خبریں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بننے کے بعد سے سامنے آ رہی تھیں۔
لیکن اب سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق توشہ خانہ کیس میں ان کی گرفتاری کا امکان زیادہ ہے۔
ایسے میں ہم نے عمران خان کی ماضی میں پہلی اور غالباً واحد گرفتاری کن حالات میں ہوئی اس پر نظر ڈالی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی لاہور میں نامہ نگار فاطمہ علی کہتی ہیں کہ نومبر 2007 کی 14 تاریخ اب بھی ان کی یاداشت کا اہم حصہ ہے۔
مشرف دور تھا اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے تحریک جاری تھی اور پولیس عمران خان کے پیچھے تھی۔
عمران خان اس وقت کے فوجی آمر کی جانب سے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے خلاف طلبہ احتجاج کی قیادت کر رہے تھے۔
فاطمہ نے ان دنوں نیا نیا صحافت میں قدم رکھا تھا اور ایکسپریس نیوز نے انہیں پنجاب یونیورسٹی بھیجا تھا کیونکہ وہاں عمران خان نے طلبہ سے ملاقات کرنی تھی۔
عمران خان طلبہ کی مشترکہ ایکشن کمیٹی کی دعوت پر یونیورسٹی گئے تھے۔
عدلیہ بحالی کی تحریک میں حصہ لینے پر ان کو گرفتاری کا خدشہ تھا اسی لیے وہ بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
فاطمہ بتاتی ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے نیو کیمپس کے سینٹر آف ہائی انرجی فزکس کے ڈپارٹمنٹ کے باہر میں اپنے کیمرہ پرسن الطاف کے ساتھ موجود تھی کہ اچانک ایک سفید گاڑی جو شاید بولان وین تھی وہاں پہنچی اور اس کے اندر سے سفید شلوار قمیص میں ملبوس عمران خان باہر نکلے۔
بس وہاں طالب علموں کا رش لگ گیا جو یونیورسٹی، لا کالج اور ہیلے کالج سے بھی پہنچے تھے۔
کچھ طالب علموں نے عمران خان کو کندھوں پر اٹھا لیا کہ اچانک کچھ دیگر طالب علم وہاں آئے اور انہیں کندھوں سے اتار کر ان کو مارنا شروع کر دیا۔ پھر کیا تھا بھگدڑ مچ گئی۔
یہ طالب علم اسلامی جمعیت طلبہ کے تھے جو وہاں عمران خان کے ساتھ الجھ گئے۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ عمران خان کو طالب علموں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں کھینچتے گھسیٹتے ہوئے سینٹر کی عمارت کے اندر لے گئے۔
اس دوران عمران خان کے چہرے پر پریشانی واضع تھی۔ ہر جانب ایک عجیب شور اور بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔
ڈپارٹمنٹ کے سلاخوں والے لوہے کے دروازے کو بند کر دیا گیا تھا۔
میرے ساتھی کیمرہ مین الطاف کو میں نے اس دروازے پر چڑھنے میں مدد فراہم کی۔
وہاں سے انہوں نے ویڈیو بنائی جو میں نے دیکھی تو اس میں عمران خان کو ڈیپارٹمنٹ کے میدان کے اندر بھاگتے اور طلبہ کو ان کے پیچھے دیکھا جاسکتا تھا۔
عمران خان کے حوالے سے اس وقت جو معلومات صحافیوں کو باہر ملتی رہیں ان کے مطابق انہیں شعبے کے ایک کمرے کے اندر 45 منٹ کے لیے بند کیا گیا۔
وہاں بھی ان پر تشدد کیا گیا۔ عمران خان نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی اور باہر گراؤنڈ میں آ گئے۔
طلبہ انہیں پکڑنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر انہیں سفید پردوں والی ایک گاڑی میں بٹھا کر یونیورسٹی سے باہر لے گئے، جہاں پولیس ان کا انتظار کر رہی تھی۔ عمران خان کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
جے آئی کے طلبہ نے عمران خان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی مہم کو یونیورسٹی میں نہ لائیں، جو 1980 کی دہائی سے اکثر پرتشدد اسلام پسند طلبہ کارکنوں کا گڑھ رہا ہے۔
ایک طالب علم نے اس وقت کہا تھا کہ ’یہ صرف ان کے تحفظ کے لیے ہے۔ ہم طلبہ کو جمع کر رہے ہیں تاکہ [انٹیلی جنس] ایجنسیاں کیمپس میں داخل نہ ہو سکیں۔‘
اپنی رہائی کے بعد انہوں نے امریکی نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر) کی میشل نورس سے گفتگو میں کہا تھا ’مجھے نہیں بتایا گیا کہ انہوں نے مجھے کیوں گرفتار کیا اور پھر کیوں چھوڑ دیا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ جیل میں ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا تو عمران خان کا کہنا تھا کہ پولیس اور جیل کے عملے نے ان کا بہت خیال رکھا۔
اس وقت بھی عمران خان نے انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ پولیس اہلکار اور جیل کام عملہ سب ان کے ہمدرد تھے اور ان سے متفق تھے کہ ’یہاں مجھے نہیں جنرل پرویز مشرف کو ہونا چاہیے تھا۔‘
عمران خان کا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی کا مطالبہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ مشرف کی جانب سے محض ہنگامی صورت حال کا خاتمہ تسلی بخش نہیں ہوگا انہیں تمام ججوں کو بھی بحال کرنا ہوگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس انٹرویو میں انہوں نے جیل میں حالات کے بارے میں بتایا تھا۔ ’میں نے گذشتہ 48 گھنٹوں میں کچھ نہیں کھایا، کل میرے پارٹی کے ورکر آ رہے ہیں اور چوں کہ ہم نے احتجاجی مہم کی طرف جانا ہے تو وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنی بھوک ہڑتال ختم کروں۔‘
تحریک انصاف کے اوورسیز پاکستان کمیشن کے چیئرمین وقاص افتخار نے، جو اس وقت خود بھی ایک طالب علم تھے اور عمران خان کے فین تھے، اپنی اس دن کی یاد ہم سے شیئر کی۔
وقاص نے بتایا کہ اس روز وہ یونیورسٹی سے باہر تھے۔ 'عمران خان کو ایک رات پہلے یونیورسٹی منتقل کیا گیا تھا۔ حفیظ اللہ نیازی نے سارا انتظام کیا تھا اور اسی خدشے کے تحت کہ انہیں گرفتار نہ کر لیا جائے انہیں یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کے گھر ٹہرایا گیا تھا۔ وہ وہیں سوئے تھے اور وہیں سے یونیورسٹی آئے تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے یاد ہے عمران خان کو ایک بولان ڈبے میں یونیورسٹی سے باہر لا کر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا۔
’اس واقعے کے بعد ہی انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن بنی اور میں اس کا مرکزی حصہ رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ عمران خان کو پہلے کوٹ لکھپت جیل بھیجا گیا، جس کے بعد انہیں ڈیرہ غازی خان جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
پولیس نے عمران کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124، 353، 149، 186، 148، امن عامہ کی دفعہ 16 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
عمران کو پہلے تھانہ اقبال ٹاؤن لے جایا گیا اور بعد میں تھانہ سبزہ زار اور پھر سول لائنز تھانے منتقل کر دیا گیا۔
اس مرتبہ عمران خان گرفتاری کے کتنے قریب ہیں یہ تو حکومت کو ہی معلوم ہو گا لیکن عمران خان نے اس چار دن کی اسیری کا اکثر تقاریر میں ذکر کیا ہے۔