تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آج آٹھ مارچ کو لاہور میں زمان پارک سے داتا دربار تک ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا۔
جس کے بعد صبح سویرے ہی کارکن زمان پارک پہنچنا شروع ہوگئے۔
ریلی کا وقت دوپہر ایک بجے دیا گیا تھا کیوں کہ سیاسی جلسے، جلوس یا ریلیاں عام طور پر تاخیر سے شروع ہوتی ہیں۔
معمول کے مطابق دیگر صحافی ساتھیوں کے ہمراہ زمان پارک جانے کے لیے گھر سے نکلے، مگر جیسے ہی ظہور الہی روڑ سے کینال روڑ کی طرف گاڑی موڑی تو ٹریفک جام تھی۔
گاڑی شادمان کالونی کی طرف موڑی ہی تھی کہ اطلاع ملی پولیس نے تمام راستے بلاک کر دیے اور پی ٹی آئی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی ہے۔
اسی دوران فوری زمان پارک پہنچنے کے لیے بے چینی بڑھ گئی کیونکہ فوری کوریج ضروری ہو جاتی ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ لوگ جب کسی تصادم سے بچنے کے لیے دور جانے کی کوشش کرتے ہیں تو صحافی جائے وقوعہ کی طرف بھاگتے ہیں۔
جب مال روڑ کی طرف جانے کے لیے چائنہ چوک پہنچے تو وہاں بھی ٹریفک جام تھی۔
دھیرے دھیرے مال روڑ پہنچے تو گورنر ہاؤس کے سامنے سے صرف ڈیوس روڈ یا پنجاب اسمبلی کی طرف جانے کے لیے راستہ کھلا تھا۔
اس رش میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں خیر جب ڈیوس روڈ مسلم لیگ ہاؤس چوک پہنچے تو دیکھا وہاں سے زمان پارک کی طرف جانے والی ٹھنڈی سڑک کا راستہ بھی ہولیس کی بھاری نفری نے کنٹینر رکھ کر بلاک کیا ہوا تھا۔
صحافی پولیس سے کوریج کے لیے زمان پارک جانے کے لیے اسرار کر رہے تھے خیر ایس پی سرفراز سے پوچھا ’اتنی سختی کیوں ہے؟‘
انہوں نے کہا ’اوپر سے سخت آرڈر ہیں۔ دفعہ 144نافذ ہے جو پی ٹی آئی کارکن آگے جانے کی ضد کر رہے ہیں انہیں گرفتار کیا جارہاہے۔‘
انہوں نے صحافیوں کو زمان پارک پیدل جانے کی شرط پراجازت دے دی۔
سامنے سے ایک پریزن وین دیکھی جو زمان پارک سے آرہی تھی اس میں پی ٹی آئی کے دس بارہ کارکن بند تھے۔
انہوں نے صحافیوں کو دیکھ کر ’عمران خان زندہ باد‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
تین چار کلومیٹر پیدل سفر کر کے زمان پارک کے قریب پہنچے تو کینال پل پر پولیس نے کنٹینر رکھ کر راستہ بند کر رکھا تھا۔
پولیس کی کافی نفری ڈنڈوں سمیت موجود تھی اور پی ٹی آئی خواتین کارکنوں کو پیدل جانے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔
کارڈ دکھا کر صحافیوں کو جانے کی اجازت ملی۔
جب کینال روڑ سے زمان پارک کی طرف مڑے تو کینال روڑ جہاں سے سڑک پار کرنا ممکن نہیں ہوتا ویران پڑی تھی۔
زمان پارک پر پی ٹی آئی کے تین سے چار سو کارکن موجود تھے اور گاڑیاں وغیرہ کھڑی تھیں۔
کنٹینر بھی موجود تھا جس پر پارٹی کے مخصوص گانے چل رہے تھے بینڈ والے بھی بلائے گئے تھے۔ بگی بھی موجود تھی اور کارکن عارضی پل سے نہر کے دونوں اطراف موجود تھے۔
پولیس اہلکار اور پی ٹی آئی اراکین ڈنڈوں سمیت ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔
اتنی دیر میں مال روڑ کی طرف سے کچھ کارکن بھاگتے ہوئے پھولے سانس کے ساتھ آئے اور بتایا کہ ’پولیس شدید شیلنگ کر رہی ہے گاڑیاں توڑ رہی ہے۔ درجنوں کارکن گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ ہم مشکل سے بچ کر آئے ہیں لہذا تیاری کر لیں شاید پولیس یہاں تک بھی آئے۔‘
وہاں پر درجن بھر خواتین بھی موجود تھیں جو کافی سہمی ہوئی اور پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔
ہم نے وہاں پر کوریج شروع کر دی کارکن کیمروں کے سامنے آکر پولیس تشدد پر شدید ردعمل دیتے دکھائی دیے۔
عمران خان کی رہائش گاہ کے اطراف 40 سے پچاس کارکن ڈنڈوں کے ساتھ سکیورٹی پر مامور تھے۔
مال روڈ کی طرف نظر دوڑائی تو اس طرف وقفہ وقفہ سے پولیس کی جانب سے کارکنوں پر شیلنگ کی جاتی رہی کارکن آگے جاتے پھر کھانستے ہوئے واپس آ جاتے۔
کچھ دیر بعد پولیس کی چھ ، سات گاڑیاں زمان پارک آگئیں اور پولیس اہلکار وہیں کھڑے ہوگئے تاکہ کارکن اب مال روڑ کی طرف نہ جائیں۔
کئی گاڑیوں میں سوار کارکنوں اور خواتین نے شکوہ کیا کہ یہ شیشے پولیس نے ڈنڈے مار کر بلاوجہ توڑ ڈالے ہیں۔
اسی دوران پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے صحافیوں کو بتایا کہ ’پولیس لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے درجنوں کارکن زخمی ہوچکے ہیں۔ جنہیں سروسز ہسپتال منتقل میا گیا ہے تاکہ طبی امداد مل سکے۔‘
یاسمین راشد چند خواتین کارکنوں کے ساتھ آئیں اور شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’چلو میں دیکھتی ہوں پولیس والے کیسے تشدد کرتے ہیں۔‘
وہ کارکنوں کے ساتھ مال روڑ کی طرف گئیں لیکن پولیس افسران نے ان سے بات کی اور وہ واپس آگئیں۔
دو تین گھنٹے تک یہی صورت حال جاری رہی مگر زمان پارک پی ٹی آئی کارکنوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی ہوتی رہی۔
شام چھ بجے کے قریب پولیس نے زمان پارک کے باہر سے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ شروع کر دی۔
اس دوران بھی کئی کارکن زخمی ہو کر ہسپتال پہنچے پی ٹی آئی کارکنوں کے جوابی ردعمل سے پولیس حکام کے مطابق گیارہ پولیس اہلکار بھی مختلف پوائنٹس پر زخمی ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی ریلی کا روٹ زمان پارک سے کینال روڑ، مال روڑ اور جیل روڑ انڈر پاس سے مسلم ٹاؤن موڑ وہاں سے فیروز پور روڑ کے راستے داتا دربار رکھا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پورے روٹ پر پولیس نے پی ٹی آئی کے کسی کارکن یا گاڑی کو جانے نہیں دیا جس طرح 25 مئی کو لانگ مارچ روکنے کے لیے روٹ سیل کر دیے گئے تھے وہی صورت حال آج دکھائی دی۔
تحریک انصاف کے کارکنوں کی مختلف مقامات پر پولیس سے جھڑپیں ہوتی رہی لیکن مرکزی قیادت میں سے کوئی بھی لیڈر کسی پوائنٹ پر دکھائی نہیں دیا۔
تاہم حماد اظہر نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’ہم نے دفعہ 144کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ کارکنوں کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ سے زخمی کیا جارہا ہے اب تک ایک سو سے زائد کارکن زخمی ہیں۔‘
اس صورت حال کے پیش نظر شام پانچ بجے کے قریب عمران خان نے آن لائن خطاب کیا اور اعلان کیا کہ ’کارکن واپس چلے جائیں ریلی منسوخ کی جارہی ہے۔‘
اس اعلان کے باوجود کارکن زمان پارک موجود تھے جنہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے شیلنگ کی۔
اسی دوران تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے کارکن علی بلال عرف ظلے شاہ جو پولیس کے لاٹھی چارج سے زخمی ہوئے تھے، وہ سروسز ہسپتال میں دم توڑ گئے ہیں۔ جبکہ دو کارکن مزید شدید زخمی حالت میں بے ہوش ہیں۔‘
سارا دن تحریک انصاف کی جانب سے جو ویڈیوز شیئر کی گئیں اور جو صورت حال آنکھوں سے دیکھی یہ وہی مناظر تھے جو 25مئی کو دیکھنے میں آئے تھے۔
ان حالات کے باوجود پولیس نے رات گئے تک زمان پارک کے راستے سیل کیے رکھے۔ ریلی تو منسوخ ہوگئی لیکن پی ٹی آئی قیادت، کارکنوں اور حامیوں کے ذہنوں میں ایک اور سخت دن کے مناظر نقش ہو گئے۔
ایسے حالات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا گیا ہے لیکن تحریک انصاف کی قیادت کو اس بارے تشویش ہے کہ وہ مہم کس طرح چلائیں گے جب کہ نگران حکومت پر بھی ان کے تحفظات موجود ہیں۔