کہانیوں اور افسانوں میں صحرا کی راتوں کی خوبصورتی کا تو بہت ذکر کیا جاتا ہے لیکن جو لوگ صحرائی زندگی کی سختیاں جھیلتے ہیں وہی جانتے ہیں کہ دن ان کے لیے اتنے روشن ہیں اور نہ ہی راتیں اتنی پرسکون۔
تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رحیم یار خان کے چک نمبر 81 پی (دڑہ باگواڑ) کی رہائشی سگنا مائی صحرا کے باسیوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو رہی ہیں۔
وہ نہ صرف اپنے علاقے کے بچوں کو تعلیم مہیا کر رہی ہیں بلکہ اپنی مادری زبان مارواڑی کی بقا کے لیے مفت سکول بھی چلا رہی ہیں جہاں بچوں کو مارواڑی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔
2016 میں قائم کیے جانے والے اس کمیونٹی سکول میں ہفتے میں پانچ دن صبح آٹھ سے ایک بجے تک بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
یہاں کُل 57 بچے پڑھتے ہیں، جن میں سے 35 لڑکیاں ہیں جب کہ 22 لڑکے ہیں۔ سگنا مائی کے بنائے گئے اس سکول کو مقامی ہندو مارواڑی کمیونٹی اپنی مدد آپ کے تحت چلاتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اس سکول کو بنانے اور چلانے والی سگنا مائی نے بتایا کہ ’ہمارے مارواڑی لوگ جہاں جاتے ہیں وہاں کی ثقافت اپنا لیتے ہیں اور اپنے کلچر اور زبان کو بھول جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان سے مارواڑی زبان آہستہ آہستہ اختتام کی طرف جا رہی ہے مگر میں چاہتی ہوں کہ ہمارے بچے مارواڑی زبان کو زندہ رکھیں۔‘
انہوں نے کہا: ’ہمارے زیادہ تر لوگ بچوں اور بچیوں کو نہیں پڑھانا چاہتے مگر میں پڑھی لکھی ہوں اس لیے چاہتی ہوں کہ اپنی کمیونٹی کے بچوں اور بچیوں کو پڑھاؤں تاکہ مارواڑی کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی مارواڑی کمیونٹی کے لیے بھی کچھ کر سکوں۔
’اسی وجہ سے میں مارواڑی کے ساتھ انگریزی اور اردو بھی پڑھاتی ہوں۔ ساتھ ہی دھارمک (مذہبی) کتابوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔‘
سگنا نے خواتین کی تعلیم کی اہمیت اور مارواڑی کمیونٹی کی اس سے لاعلمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کی بچی جب کل ماں بنے گی تو یقیناً اسے ایک پوری نسل کی تربیت کرنی ہو گی، اگر ایک ماں تعلیم یافتہ اور باشعور ہو گی، تبھی وہ اپنی اولاد کی بھی اچھی تربیت کر سکے گی، اسی لیے میں خواتین کی تعلیم پر بہت زور دیتی ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول سگنا: ’ہمارے لوگ تعلیم سے ڈرتے ہیں کہ ہماری بچیاں نہ پڑھیں، میں گاؤں میں گھر گھر گئی اور اپنے لوگوں سے کہا کہ آپ بچیوں کو پڑھائیں تا کہ جن مشکل حالات سے میں گزر رہی ہوں وہ انہیں پیش نہ آئیں۔ میں نے ان کی رہنمائی کی اور اب وہ بچیوں کو پڑھا رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہاں لڑکیاں تو درکنار لڑکوں کو بھی نہیں پڑھایا جاتا مگر میں نے گھر گھر جا کر لوگوں کو تعلیم کی اہمیت باور کروائی ہے، اسی لیے اب اتنی تعداد میں یہاں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی سگنا نے خود تعلیم حاصل کرنے اور اسے آگے پہنچانے کا سہرا اپنی فیملی کے سر باندھتے ہوئے کہا: ’میرے بھائی اور والدین چاہتے تھے کہ میں پڑھوں مگر میرے لیے بہت مشکلات ہوتی تھیں کیونکہ کمیونٹی کے لوگ اعتراض کرتے تھے، مگر میرے گھر والوں نے پھر بھی میرا ساتھ دیا اور میں نے تعلیم حاصل کی۔‘
ساتھ ہی سگنا مائی نے حکومتِ پاکستان سے درخواست کی کہ سرکاری سکولوں میں بھی ہندو بچوں کے لیے ان کی مذہبی اور مارواڑی کتابیں پڑھانے کے لیے اساتذہ مقرر کیے جائیں۔